مدھیہ پردیش میں خاتون پولیس عہدیداروں نے
عصمت دری کے ملزم کا مکان بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کر دیا
بھوپال: 11۔مارچ
(سحر نیوز ڈاٹ کام/ایجنسیز)
ایک پرامن ملک اور سماج میں جرائم کی روک تھام کے لیے مجرمین کو سخت سزائیں لازمی ہیں۔اس کے لیے ملک میں قوانین موجود ہیں،پولیس کا کام مجرمین کو پکڑنا اور انہیں تمام پختہ ثبوت و شواہد کے ساتھ عدالتوں میں پیش کرنا ہوتا ہے۔دستوری طور پر عدالتوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں،گواہوں اور شواہد کی رؤشنی میں مجرموں کے لیے سزاؤں کا تعین کریں۔
لیکن گذشتہ چند سال سے بالخصوص بی جے پی اقتدار والی ریاستوں اور خاص کر اتر پردیش سے شروع کیا گیا بلڈوزر کلچر اب دیگر ریاستوں تک بھی پہنچ گیا ہے۔جہاں عدالتوں کے فیصلوں سے قبل ہی ملزمین کے مکانات پر بلڈوزر چلاکر انہیں تہس نہس کیا جارہا ہے۔اور ایک مخصوص طبقہ اس کی کھل کر تائید بھی کرنے میں مصروف ہے۔باقاعدہ چیف منسٹر اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر بابا کا نام تک دیا گیا ہے۔اتر پردیش میں بلڈوزر کارروائی اب عام بات بن کر رہ گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ایسا ویڈیو وائرل ہواہےکہ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند خاتون پولیس عہدیداروں کا ایک گروپ بلڈوزر پرسوار ہوکر ایک عصمت ریزی کے ملزم کے مکان کو بلڈوزر کے ذریعہ تہس نہس کرنےکے بعد ہنستے اورمسکراتےہوئے بلڈوزر سے اتر رہی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ یہ ملزم فرار ہے۔
A group of women cops bulldozed the home of a rape accused in Damoh, the latest in the series of bulldozer justice as witnessed in BJP-ruled states. pic.twitter.com/Hs2qT7Rk8U
— Anurag Dwary (@Anurag_Dwary) March 10, 2023
میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے 250 کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود داموہ کاہے۔جہاں ایک نابالغ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔اس معاملہ میں پولیس نے تین افراد کو گرفتار کرلیاہے۔جبکہ چوتھا ملزم کوشل کشور چوبے فرار ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مقبوضہ اراضی پر غیر قانونی طور پر مکان تعمیر کر رکھا تھا اور پولیس نے اس مکان مسمار کر دیا۔
اس سلسلہ میں اسٹیشن ہاؤز آفیسر رانہہ پراشیتا کرمی نے میڈیا سے کہاکہ کوشل کشور چوبے نابالغ کی اجتماعی عصمت دری کیس میں فرار ہے اور کوشل کشور چوبے نےغیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کررکھا تھا۔بلڈوزر خاتون اہلکاروں کے ایک گروپ نےچلایا۔انہوں نے کہاکہ خاتون افسران نے اچھا کام کیا ہے اور اس طرح کی کارروائیاں جاری رہنی چاہئے۔
وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل اس واقعہ کے ویڈیو پر صارفین اپنے کمنٹس میں سوال اٹھارہے ہیں کہ”کسی کو سزا دینے والے پولیس والے کون ہوتے ہیں؟ایسا لگتاہے کہ پولیس فوجداری نظام انصاف میں اپنا کردار بھول گئی ہے۔ان کا کردار ملزمان کی شناخت کرنا اور ٹرائلز میں ملزمان کا جرم ثابت کرنے میں پراسیکیوشن کی مدد کرناہے۔لیکن ہم رام راجیہ میں ہیں،جہاں سیاستدان عوام کوسزا دیتے ہیں وہ پولیس کے ذریعہ مجرم سمجھتے ہیں،ایک اور صارف نےکمنٹ کیاہے کہ ” گھر کسی ایک کا نہیں ہوتا،وہ پورے خاندان کو کیسے سزا دے سکتے ہیں۔غیر آئینی۔”
یاد رہے کہ جاریہ سال جنوری میں مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں ضلع انتظامیہ نے ممنوعہ چینی مانجھا کی فروخت میں مبینہ طور پر ملوث دو افراد کے مکانات کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کر دیا تھا۔
جبکہ گذشتہ سال ماہ اپریل میں رام نومی شوبھا یاترا پر پتھراؤکے الزامات کےبعد دوسرے دن صبح سے اسی مدھیہ پردیش کے کھرگون میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلاتے ہوئے کئی مکانات اور دکانات کو زمین بوس کردیا گیا تھا۔اس کے لیے کہا گیا کہ یہ مکانات غیر قانونی تھے۔جبکہ انہیں مکانات میں ایک مکان حسینہ فخرو نامی ضعیف خاتون کا تھا جسے پرائم منسٹر آواس یوجنا اسکیم کی مدد سےتعمیر شدہ تھا۔اس وقت وزیرداخلہ مدھیہ پردیش مسٹر نروتم مشرا نے پریس کانفرنس میں وارننگ دیتےہوئے کہاتھا کہ” جس گھر سے پتھر آئےہیں وہ خود ہی پتھروں کاڈھیر بن جائے گا۔اس پتھراؤ کے الزام میں اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم وسیم شیخ کو ملزم بنایا گیا تھا اور ان کا ایک چھوٹا سا اسٹال بھی توڑ دیا گیا تھا۔
اس کے بعد دہلی کے جہانگیر پوری میں بھی بلڈوزر کاروائی کا آغاز کیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے روک لگائی تھی۔
اسی طرح جاریہ سال 5 جنوری کو بی جے پی اقتدار والی ریاست اتر اکھنڈ کے ہلدوانی کی بن پھول پورہ بستی کےانہدام کے ریاستی ہائی کورٹ کےحکم سے شدید پریشان 50 ہزار سے زائد روتے بلکتے مکینوں کو سپریم کورٹ نے بہت بڑی راحت فراہم کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی جانب سے 20 ڈسمبرکےاواخر میں ریلوے کی اراضی پرتعمیر ان بستیوں میں موجود چار ہزار سے زائد مکانات،دکانات،مساجد،منادر،اسکولوں،کالجوں اور ہسپتالوں کو منہدم کرنےکے حکم پر یہ کہتے ہوئے روک لگادی تھی کہ 50 ہزار افراد کو سات دنوں میں بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔
ان درخواستوں پر معزز جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکھا پرمشتمل سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے سماعت کی تھی معزز جسٹس ایس کے کول نے کہا تھا کہ یہ لوگ وہاں 50-60 سال سے رہ رہے ہیں،ان کی کچھ بحالی کے انتظام کرنے ہوں گے، یہاں تک کہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ ریلوے کی زمین ہے لیکن اس کا ایک انسانی زاویہ بھی ہے۔
کھرگون میں شوبھا یاترا تشدد: دونوں ہاتھوں سے محروم وسیم شیخ پر پتھراؤ کا الزام!