علمی سرمائے کی منتقلی کے لیے اقوام ترجمے کی اسیر،اردو ترجمہ نگاری میں عصری ٹیکنا لوجی کے استعمال کی وکالت
شعبہء اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے منعقدہ دو روزہ قومی سمینار سے مہمان مقررین کا خطاب
حیدرآباد : 09۔مارچ
(سحرنیوزڈاٹ کام/رپورٹ)
علمی سرمائے کی منتقلی کے لیے اقوام ترجمے کی اسیر ہیں او ر اردو ترجمہ نگاری میں عصر ی تکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنایا جائے تاکہ وقت کی کمی سے ہونے والے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے دو روزہ قومی سمینار بعنوان ” عصر حاضرمیں اردو ترجمہ نگاری : اہمیت، مسائل اورامکانات “ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوے کیا۔جس کا انعقاد شعبہء اردو،اسکول آف ہیومانٹیز، یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے بہ تعاون انسٹی ٹیوٹ آف اِمینینس کیا گیا تھا۔
اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسرنسیم الدین فریس سابق صدر شعبہء اردو مانو نے کی جبکہ پروفیسر ایس اے شکور سابق صدر شعبہء اردو عثمانیہ یونیورسٹی،پروفیسر قاسم علی خان سابق صدر شعبہء اردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی،پروفیسر شوکت حیات سابق صدر شعبہء اردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی اور پروفیسر ارجمند آراء شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی نے مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے خطاب کیا۔
پروفیسرسید فضل اللہ مکرم، یونیورسٹی آف حیدرآباد،شعبہء اردو نے اس دو روزہ سمینار کی بحیثیت سر پرست نگرانی کی۔انہوں نے اپنے خطاب میں بتایاکہ شعبہءاردو،یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے اس طرح کی پہل وقتاًفوقتاً ہوتی رہےگی اور اس طرح کی علمی سرگرمیوں سے مختلف موضوعات پرتحقیقی دریچے کھلتے ہیں اور نئی راہیں فراہم ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترجمہ اہم شعبہ ہے جس سے اردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد کاشف،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو نے سمینار کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ 40 سے زائد مقالہ نگاروں نے اس دو روزہ قومی سمینار میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں۔
ڈاکٹر ناظم علی،سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نے سمینار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔وفیسر ایس اے شکور سابق صدر شعبہء اردو عثمانیہ یونیورسٹی، پروفیسر قاسم علی خان سابق صدر شعبہء اردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، پروفیسر شوکت حیات سابق صدر شعبہء اردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی اور پروفیسر ارجمند آراء شعبہ ء اُردو دہلی یونیورسٹی نے شعبہ ء اردویونیورسٹی آف حیدرآباد کو مبارکباد پیش کی کہ اس طرح کی علمی سرگرمی میں جنوب سے شمال تک کی علمی شخصیتوں کو مدعو کرتے ہوے ایک نایاب موقع فراہم کیا گیا۔
پروفیسر نسیم الدین فریس سابق صدر شعبہء اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) نے اپنے صدار تی خطاب میں کہا کہ ترجمے کا عمل زبان کے وجود ہی سے جاری ہے،جس کے ذریعہ علمی،سماجی،مذہبی ودیگر سرمایوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔انہوں نے قومی سمینار کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا۔
اختتامی اجلاس کی نظامت جوائنٹ کنوینر سمینار ڈاکٹر اے آر منظر (شعبہ ء اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد) نے کی۔اس دو روزہ سمینار کے پہلے روز ڈاکٹر ذاکر حسین لکچر کامپلیکس میں واقع آڈیٹوریم میں افتتاحی اجلاس منعقد کیاگیا جس کی صدارت پروفیسر رحمت یوسف زئی سابق صدرشعبہء اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی۔جبکہ پروفیسر اشرف رفیع سابق صدرشعبہء اردوعثمانیہ یونیورسٹی،پروفیسر مجید بیدار سابق صدرشعبہء اردو عثمانیہ یونیورسٹی،پروفیسر سجاد حسین سابق صدر شعبہء اردو مدراس یونیورسٹی اور پروفیسر شہاب عنایت ملک (جموں یونیورسٹی )نے مہمانانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہوے خطاب کیا۔
پروفیسر آر ایس سر راجو پرووائس چانسلر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے مہمانِ اعزازی کے طور پر شرکت کرتے ہوے افتتاحی خطبہ دیا۔
پروفیسرحبیب نثار،صدرشعبہء اردو یونیورسٹی آف حیدرآبادنے مہمانوں اور شرکا کا خیرمقدم کیاجبکہ افتتاحی اجلاس کی نگرانی بھی بہ حیثیت سرپرست سمینار پروفیسر سید فضل اللہ مکرم نے ہی کی۔
پروفیسر ارجمند آراء (یونیورسٹی آف دہلی) نے کلیدی خطبہ دیا،انہوں نے کہا کہ ترجمے کےدوران عملی میدان میں پیش آنےوالی مشکلات اور ان کے حل پرتفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کامیاب ترجمہ وہی ہے جس میں محنت، مشقت اور ریاضت کے ساتھ اصل کی روح بھی منتقل ہوجائے۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت ریسرچ اسکالر محمد خوشتر نے کی اور جوائنٹ کنوینر سمینار ڈاکٹر نشاط نے ہدیہء تشکر پیش کیا۔ جبکہ مہمانان کو تہنیت کے طور پر مومنٹوز بھی پیش کیے گئے۔اس سمینار کے لیے شعبہء اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے ملک بھر سے تقریباً 100 مہمانوں کو مدعو کیا گیاتھا،افتتاحی اور اختتامی اجلاس کےعلاوہ جملہ آٹھ اجلاس منعقد ہوئے،جس میں ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے مختلف موضوعات پر اپنے مقالے پیش کیے۔