انسانیت ابھی زندہ ہے! پولیس نے نامعلوم شخص کی نعش کو کاندھوں پر اٹھاکر تین کلومیٹر کا فاصلہ طئے کیا
وشاکھا پٹنم/رام بیلی 28۔ مارچ (سحر نیوزڈاٹ کام)
پولیس کا ذکر آتے ہی زیادہ تر بالخصوص متوسط اور غریب طبقہ کےعوام کےذہنوں میں ظالم اور جابر کی شبیہ ابھرتی ہے کہ ان کی مارپیٹ اور گالی گلوچ سے دشمن بھی محفوظ رہے۔!!
جی نہیں ہر پولیس والا ایسا ہرگز نہیں ہوتا کئی مواقعوں پر پولیس نے اپنی کارکردگی کے ذریعہ عوام کا دل ہی جیتا ہے، کہتے ہیں کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہیں عبادات اور پوجاپاٹ کے اؤقات میں ہی کھلی رکھی جاتی ہیں جبکہ پولیس اسٹیشن ایک ایسی جگہ ہے جس کے دروازے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں!! نہ کبھی اس پر تالا لگتا ہے اور نہ اسکو تعطیل ہی ہوتی ہے۔اور یہ پولیس کا خوف ہی ہوتا ہے کہ سماج میں جرائم کم ہوتے ہیں۔
پولیس والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں انکے بھی وہی جذبات ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کے ہوتے ہیں ، خدمات کے دؤران سختی برتنا ان کی ڈیوٹی کا ایک لازمی حصہ بن جاتاہے۔
آندھرا پردیش کے وشاکھا پٹنم ضلع کے ایک پولیس اسٹیشن کے چند پولیس ملازمین نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ بھی انسان ہیں اور انسانیت کا درد وہ بھی رکھتے ہیں۔ جب ان پولیس والوں نے سمندر کے کنارے دستیاب ایک نامعلوم شخص کی مسخ شدہ نعش کو اپنے کاندھوں پر اٹھاکر تین کلومیٹر تک کا پیدل سفر کرتے ہوئے ہسپتال کے مردہ خانہ کو منتقل کیا۔
پولیس کی جانب سے کیے گئے انسانیت کے اس مظاہرہ کا 14 سیکنڈ پر مشتمل ویڈیو یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
پولیس کے اس انسانی مظاہرہ کی ڈی جی پی آندھرا پردیش کیساتھ ساتھ ہرکوئی ستائش کررہا ہے کہ ” زندہ لوگوں کو نظر نداز کردئیے جانے کے اس دؤر میں” ان پولیس والوں نے نامعلوم شخص کی مسخ شدہ نعش کو سمندر میں واپس پھینک دینے کے بجائے اپنے کاندھوں پر اٹھاکر ہسپتال منتقل کیا!! وشاکھا پٹنم ضلع کے رام بیلی پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر اور دیگر پولیس ملازمین نے اس انسانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سیتا پالیم سمندر کے ساحل پر ایک نامعلوم شخص کی مسخ شدہ نعش جمعہ کے دن سمندر کے پانی میں بہتے ہوئے کنارے پر آگئی تھی رام بیلی پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر پولیس ارون کرن نے اس سلسلہ میں ایک کیس درج رجسٹر کرتے ہوئے ریاست کے مختلف پولیس اسٹیشنوں کو اطلاع دی تھی تاہم ہفتہ تک بھی اس نعش کی شناخت کرنے یا اس کو حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی رجوع نہیں ہوا۔
مسخ شدہ نعش کو سمندر کے ساحل سے سڑک تک منتقل کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہوا تو سب انسپکٹر پولیس ارون کرن اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس دورا، ہیڈ کانسٹیبل مسینو ، کانسٹیبل نرسنگاراؤ اور ہوم گارڈ کونڈا بابو نے اس مسخ شدہ نامعلوم شخص کی نعش کو ایک چٹائی میں لپیٹ کر ،لکڑیوں پر باندھ کر خود اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے سمندر کے ساحل سے تین کلومیٹر کا پیدل سفر کرتے ہوئےسیتا پالے تک لے آئے۔ پھر وہاں سےنعش کو گاڑی میں لادکر ایلامنچیلی ہسپتال کے مردہ خانہ کو منتقل کیا۔
پولیس کے اس اقدام پر جہاں عوام کی جانب سے ستائش کی جارہی ہے وہیں ڈی جی پی آندھرا پردیش مسٹر گوتم سوانگ نے اپنے ماتحت عملہ کے اس انسانی مظاہرہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ” ملک بھر میں پولیس کی ایسی شبیہ پیش کرنے والے پولیس ملازمین کو میں سلام کرتا ہوں ” ۔
ڈی جی پی مسٹر گوتم سوانگ نے سماجی اور انسانی خدمت کا پرچم بلندکرنے والے رام بیلی کے ان پولیس ملازمین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسخ شدہ نعش کو تین کلو میٹر طویل فاصلہ تک اپنے کاندھوں پر اٹھاکر ان ملازمین پولیس نے انسانیت کا پرچم بلند کیا ہے۔
ڈی جی پی آندھرا پردیش مسٹر گوتم سوانگ نے کہا کہ رام بیلی پولیس اسٹیشن سے وابستہ عملہ کی جانب سے اس انسانی مظاہرہ کی پورا ملک تعریف وستائش کررہا ہے۔ڈی جی پی نے اپنی جانب سب انسپکٹر رام بیلی پولیس اسٹیشن ارون کرن اورانکے ماتحت عملہ کو خصوصی مبارکباد بھی پیش کی۔