دینی مدارس کی ناقدری ،مسلمانوں کے زوال کا سبب

Uncategorized

دینی مدارس کی ناقدری ،مسلمانوں کے زوال کا سبب

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی ،حیدرآباد

فون : 9395381226

جمعہ 26/فروری کو ایک عرصہ بعد مسجد فیض العلوم سعیدآباد میں نماز جمعہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ خطبہ جمعہ سے قبل انتظامیہ کمیٹی کے ایک ذمہ دار رکن نے اعلان کیا کہ مدرسہ اور مسجد فیض العلوم سعیدآباد کی الکٹریسٹی بل کی ادائیگی کے لئے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے مطلوبہ رقم کا بھی اعلان کیا۔ اسی وقت بعض اہل خیر حضرات نے واٹس اَیپ پر اپنے شناسا حضرات کو اس سے واقف کروایا۔

اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ احسان و شکر ہے کہ بعض نے اپنے اپنے طور پر مدرسہ اور مسجد کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کردی۔ 27/فروری کو نائب ناظم انتظامیہ کمیٹی جناب خواجہ ضیاء الدین صاحب سے یہ خوشخبری ملی کہ مطلوبہ رقم کا نشانہ مکمل ہوچکا ہے۔ الحمدللہ! یقینا مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم ملک کے باوقار دینی درسگاہوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

اس کے ناظم اول حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئیؒ کئی دینی درسگاہوں کے بانی تھے۔ مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبہ حفاظ علماء فقیہان بن کر فارغ ہوئے ہیں۔ ہر دور میں بے لوث حضرات نے اس کی مثالی خدمات انجام دی ہیں۔ اسی لئے اس ادارے اور اس سے وابستہ اساتذہ، علماء، اکابرین اور طلبہ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم کی نیک نامی‘ اس کی کامیابی اور ترقی کی ضامن ہے۔ اخلاص اور نیک نیتی سے قائم ہونے والے اداروں پر اللہ رب العزت کی خاص رحمت ہوتی ہے۔ ہمارے شہر، ہماری ریاست اور ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس خاموشی کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ مدارس نہ ہوتے تو یتیموں، غریبوں، بے سہارا اور بے کس بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت ایک مسئلہ رہتی اور یہ بچے جو علماء، حفاظ، ہوکر مسلم معاشرے کا وقار اور شعائر اسلامی کے محافظ یا خدمت گذار بن جاتے ہیں‘ ورنہ یہ بچے معاشرے کا ناسور اور دھرتی کا بوجھ بن جاتے ہیں۔

مساجد میں امامت اور اذانیں کون دیتا۔ نکاح کے خطبات ہوں یا بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے والے کہاں سے ملتے۔ مسلم میتوں کا غسل‘ تجہیز و تدفین کے لئے مسائل پیدا ہوتے۔ اِن مدارس نے مسلمانوں کو مسلمان بنائے رکھا۔ جہاں جہاں یہ قائم ہیں‘ وہاں وہاں علم کے نور سے جہالت، توہم پرستی، مشرکانہ عقائد کے اندھیرے دو ر ہوئے۔ ہر دور میں دینی مدارس اور مساجد اسلام دشمن طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتے رہے ہیں۔

بغداد ہو یا اسپین، ترکی‘ بوسنیا‘ چیچنیا، روس ہو یا برصغیر ممالک دشمنوں نے اِن مدارس پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ کیوں کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ جب تک یہ مدارس رہیں گے اس وقت تک اسلام کا پرچم سربلند رہے گا۔ چنانچہ ہر مسلم دشمن طاقت نے ان مدارس کو کبھی دہشت گردی کے اڈے ثابت کرنے کی کوشش کی تو کبھی انہیں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا۔ ان مدارس کے معاملات میں دخل اندازی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ مگر مدارس کے علماء، اساتذہ ہوں یا طلبہ انہوں نے ہر سازش اور کوشش کو اپنے عزم و استقلال سے ناکام بنایا۔ دینی مدارس ہر دور میں آزمائشی مراحل سے گزرتے رہے ہیں۔

مگر سال 2020 میں دینی مدارس کے ساتھ ساتھ مساجد کو بند کردیا گیا تھا۔ سات آٹھ مہینے کا یہ دور اللہ نہ کرے کہ دوبارہ آئے۔ مساجد اور مدارس کو ملنے والے عطیات پر بہت کم مخیر حضرات نے توجہ دی۔ اکثر و بیشتر مساجد اور مدارس کی اپنی موقوفہ جائیدادیں نہیں ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کے اخراجات کا دارومدار اہل خیر حضرات اور مصلیان کے عطیات سے ہی ممکن ہے۔ اُسی میں سے امام، مؤذن اور ا ساتذہ کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ طلبہ کے طعام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر مدارس کی عمارتیں ذاتی نہ ہوں تو کرایہ بھی اسی رقم سے ادا کیا جاتا ہے۔”کرونا بحران“ کی وجہ سے مساجد بند رہیں‘ رمضان المبارک کی عبادتیں بھی گھر میں ہوتی رہیں۔ اسی مہینہ میں سب سے زیادہ عطیات، صدقات، زکوٰۃ کی رقم ادا کی جاتی ہے اور تقریباً ہر نماز میں بھی مساجد میں چندے کے ڈبے گشت کرائے جاتے جس سے اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی تھی۔

اس سال مدارس اور مساجد کی کمیٹیاں ان عطیات سے محروم رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الکٹری سٹی بل کے لئے مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم کو نماز جمعہ میں اعلان کرنا پڑا۔ ایسے ہی مسائل سے یقینا دیگر مدارس اور مساجد بھی دوچار ہوں گے۔ اہل خیر حضرات کی کمی نہیں ہے۔ مگر یہ کڑوا سچ ہے کہ اکثر عام مسلمان جس طرح سے مسجد سے اذان کی آواز سن کر احتراماً اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتا ہے اور خاموشی سے مسجد کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ خواتین سرپر آنچل سرکا لیتی ہیں اور احتراماً ٹی وی کا والیوم کم کردیتی ہیں۔

مگر چندے کیلئے اپنے گھر آنے والے مسجد اور مدرسے کے سفیر کو 20روپئے سے 100روپئے کے چندے کے لئے کئی کئی بار چکر لگانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر کیبل کنکشن یا موبائل کا معاملہ ہو تو وقت سے پہلے ری۔چارج کرلیا جاتاہے۔ ایسا ہی حال عربی پڑھانے والے مدرسین و معلمین کے ساتھ ہوتا ہے۔ عصری تعلیم کے ٹیوشن کے لئے منہ مانگی فیس دی جاتی ہے۔ اور جس علم کی بدولت دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود ہے‘ جس کی وجہ سے پڑھنے والا بھی اور اس کا انتظام کرنے والے کی آخرت سنورتی ہے‘ اس علم کو حاصل کرنے کے لئے چند روپئے احسان جتاکر دیئے جاتے ہیں۔

شاید مسلمانوں کے زوال‘ ان کے ہر طرف سے پٹنے اور جوتے کھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علمائے کرام اور اکابرین کا ہم احترام نہیں کرتے۔ جو انبیاء کے وارث کا احترام اور لحاظ نہیں کرتے وہ بھلا اللہ کے رحم و کرم کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں۔ یہ تو اللہ رب العزت کی علمائے کرام اور اساتذہ کرام پر خصوصی رحمت ہے کہ معمولی تنخواہوں میں ان کی گزر بسر ہوتی ہے کیوں کہ ان کی کمائی میں اللہ نے برکت رکھ دی ہے۔

دینی مدارس اور مساجد کے انتظامات میں ہر مسلمان کو اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ کیوں کہ یہ ہیں تو ہمارا وجود باقی ہے۔ مساجد کی بے حرمتی پر ہم بہت شور مچاتے ہیں مگر ان مساجد کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لئے ہم کیا کرتے ہیں ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ مدارس اور مساجد کے عطیات اور عربی کے معلمین و مدرسین کے ہدیہ کو معقول بنایا جائے‘ اس سے آپ کو قلبی طمانیت بھی ہوگی اور اللہ رب العزت غیب سے آپ کی آمدنی میں برکت دے گا۔ ہمارے علمائے کرام، حفاظ ہمارا وقار ہیں۔

وہ اگر معاشی طور پر آسودہ حال ہوں گے تو وہ تعلیم بھی صحیح طور پر دے سکیں گے۔ ائمہ اور مؤذنین کا اعزازیہ اتنا ضرور ہو کہ معاشی مسائل نماز کے دوران وسوسے پیدا نہ کریں۔ یہ مساجد کے انتظامی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ ہر محلے کے اصحاب حیثیت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان علمائے کرام حفاظ کی خیر خیریت دریافت کریں۔ ان کے علاج ومعالجہ کے انتظامات کروائیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم کی کفالت کی جائے۔
شاندار ایرکنڈیشنڈ مساجد کی تعمیر لاکھوں روپئے کے جھومر و فانوس آرامدہ قالین اور جائے نماز سے زیادہ ضروری ہے کہ ائمہ اور مؤذنین، علماء اور حفاظ کی معاشی حالت کو بہتر بنایا جائے۔

جہاں تک مساجد اور دینی مدارس کے بانیان اور انتظامی کمیٹی کے ذمہ داران کا تعلق ہے‘ ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ائمہ، مؤذنین اور معلمین کے مسائل کو حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔ ہم نے تو قرآن یا دینیات مسجد کے صحن میں پڑھا۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ مساجد ہمارے دینی اور ثقافتی مراکز ہیں۔ کیوں کہ عالم اسلام کی پہلی درسگاہ مسجد نبوی کے صحن میں ”صفہ“ پر شروع ہوئی تھی۔

آج بھی مدارس کو علم و دانش کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ویسے اکثر و بیشتر مقامات پر مساجد کا صحیح استعمال کیا جارہا ہے۔ دینی مدارس میں عصری تعلیم کا امتزاج شروع ہوا ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔ اچھی اور فصیح اردو میں ہم شہری علاقوں میں تو کام چلا سکتے ہیں‘ شہر سے 50سے 100 کیلو میٹر کے فاصلے پر ہمیں مقامی زبان میں بات کرنی ہوتی ہے‘ اس لئے دینی مدارس میں جو بھی مقامی چاہے تلگو‘ مراٹھی‘ بنگالی‘ کنڑا ہو یا ہندی سکھائی جائے تاکہ برادرانِ وطن تک ہم اپنے دین حق کا پیغام پہنچا سکیں۔

عصری تعلیم کی اہمیت سنت رسول ہے۔ کیوں کہ جنگ بدر کی قیدیوں کو جو فدیہ دینے قابل نہ تھے انہیں عصری علم سکھانے کے عوض رہا کیا گیا تھا۔ ورنہ مسلمانوں اور کافر دونوں کی زبان ایک ہی تھی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بہت سارے دینی مدارس میں انگلش، جرنلزم، کمپیوٹر کورسس، کا بھی اہتمام ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دینی مدارس ہی کی بدولت اردو زندہ ہے‘ یہ مدارس نہ رہیں تو اردو ختم ہوجائے۔

اردو نے مسلمانوں کا مذہب سے رشتہ جوڑے رکھا ہے۔ تفسیر، قرآن، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اردو ہی میں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے طلباء میدان صحافت میں غیر معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ یہ ایماندار اور سچے صحافی ہیں جو معاشرہ کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ دینی مدارس آج جو خدمات ا نجام دے رہے ہیں‘ اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ لہٰذا اِن مدارس کا مالی استحکام ایک بہترین مستحکم مسلم معاشرہ کا ضامن ہے۔