اسی کا شہر،وہی مدعی،وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
گجرات میں گربا پنڈال پر پتھراؤ کا الزام،9 نوجوانوں کی کھمبے سے باندھ کر پولیس نے کی خوب پٹِائی
مدھیہ پردیش میں نوراتری میں خلل کا الزام، تین مکانات پر بلڈوزر چلادیا گیا،ویڈیوز وائرل
نئی دہلی:05۔اکتوبر (سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)
دستور ہند کےتحت حکومتوں اور محکمہ پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کسی بھی ملزم یا ملزمین کے خلاف قانونی کارروائی کو قانون کے دائرہ میں رہ کر ہی انجام دیا جائے۔کسی شکایت پر پولیس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اس شکایت کی مکمل اورغیر جانبدارانہ طریقہ سے تحقیقات انجام دے ۔بعدازاں ان ملزموں کو گرفتار کرتےہوئےعدالتوں میں پیش کرے۔ثبوت و شواہد کی بناء پر عدالتیں اپنا فیصلہ صادر کرتی ہیں ملزموں کا چاہے اس ملک کے کسی بھی مذہب یا ذات پات سے ہو سب کے لیے ایک ہی قانون لاگوہوتا ہے۔
لیکن افسوس کہ گزشتہ چند سال سے مختلف ریاستوں بالخصوص بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں محض الزامات کے ساتھ ہی ایک مخصوص فرقہ کے خلاف حکومت اور پولیس اپنی جانب سے ہی فیصلے کرنے لگ گئے ہیں اور فٹافٹ سزا کا تعین بھی کردیا جارہا ہے!!
نہ عدالت،نہ سماعت،نہ صفائی نہ گواہ! بس کسی بھی الزام پر بلڈوزر اور پولیس کی لاٹھیاں سرعام قانون کی دھجیاں اڑارہی ہیں۔!! جو کہ دستور، ملک اور خود عدالتوں و قانون کے لیے یہ عمل خطرناک ہے!
اسی سال شوبھایاتراکےموقع پر پتھراؤ کےالزام کےبعد راجستھان میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔املاک نذرآتش کی گئیں اور دونوں فرقوں کے درمیان تصادم کے بعد کرفیو لگادیا گیا تھا۔جبکہ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں شوبھایاترا پر پتھراؤ کے الزامات کے دوسرے ہی دن بلڈوزرس کی مدد سے ایک مخصوص طبقہ کے مکانات کویہ کہتے ہوئے آن واحد میں منہدم کردیا گیاتھاکہ یہ غیر قانونی تعمیرات ہیں۔جبکہ ان میں ایک مکان ایسا بھی تھا جو کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت منظورہ تھا۔اترپردیش میں بھی کئی مقامات پر بلڈوزرس کے ذریعہ اسی طرح مختلف مواقع پر مکانات منہدم کیے جاتے رہے ہیں۔
اب ریاست گجرات کا ایک انتہائی لرزہ دینے والا ویڈیو سوشل میڈیا کےمختلف پلیٹ فارمز پر سونامی کی طرح وائرل ہوا ہے اور اس پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوجوانوں کو باری باری برقی کھمبے سے باندھ کر خود پولیس کی جانب سے بےتحاشہ لاٹھیوں کے ذریعہ پیٹا جارہا ہے۔ اور وہاں جمع ہجوم جن میں خواتین ، مرد اور نوجوان شامل ہیں اور سڑک پر بیٹھے ہوئے نوجوان تالیاں بجاتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے "بھارت ماتا کی جئے” اور "جئے شری رام”کے نعرے لگارہے ہیں۔جبکہ پولیس کی بربریت کاشکار یہ نوجوان درد برداشت نہ کرتےہوئے چیخ رہے ہیں اور رورہے ہیں۔قریب ہی یونیفارم میں موجود پولیس فورس بھی آرام کے ساتھ یہ نظارہ دیکھ کر سامعین کے ساتھ لطف اندوزہورہی ہے۔
اس واقعہ کی تفصیلات کے مطابق گجرات کے کھیڑا ضلع کے تحت ادھیلا گاؤں کے گربا پنڈال پر پتھراؤ کے الزام کے بعد پولیس نے 9 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا اور ان ملزموں کو گاؤں لے گئی،انہیں چوک پر برقی کھمبے سے باندھ کر سرعام مجمع کے سامنے ایک ایک کو پکڑ کر نوجوانوں کی پٹائی کی گئی۔اس کے بعد ان ملزموں سے ہاتھ جوڑ کر وہاں جمع ہندو برادری کے لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی منگوائی گئی۔
اس پولیس کی کھلی بربریت پر جرمنی کے ہند نثراد پروفیسر اشوک سوائن نے اسی ویڈیوکو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”نیو انڈیا قرون وسطیٰ کا ہندوستان ہے:9 مسلم مردوں کو سرعام کوڑے مارے جا رہے ہیں،جبکہ مودی کی ریاست گجرات میں بھیڑ قوم پرست نعرے لگا رہی ہے!
New India is Medieval India: Nine Muslim men are being publicly flogged while crowd is doing nationalist chant in Modi’s state Gujarat! pic.twitter.com/nMcBQKy0IO
— Ashok (@ashoswai) October 4, 2022
اس قانون کی دھجیاں اڑانے والے دیڈیو کو سپریم کورٹ کے نامور و سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے ٹوئٹ کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ” ذہنی طور پر پسماندہ وحشی۔کیا گجرات پولیس کارروائی کرے گی؟ یا گجرات میں قانون کی حکمرانی مردہ ہے؟
Lumpen barbarians. Will the Gujarat police act? Or is the rule of law dead in Gujarat? https://t.co/8GaZn9rESd
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) October 4, 2022
پولیس کی جانب سے نوجوانوں کی پٹائی کے ویڈیو پر جب میڈیا نے انسپکٹر جنرل وی چندرشیکھراحمد آباد رینج سے دریافت کیا تو انہوں نےکہا کہ "انہوں نے ایسا کوئی ویڈیو کلپ نہیں دیکھاہے”۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر پولیس کی جانب سے قانون کی کوئی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اس کی تحقیقات کی جائے گی۔
چند ماہ قبل بھی اتر پردیش کے سہارنپور کا ایک ایسا ہی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔جس میں نصف درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو پولیس اسٹیشن میں لاٹھیوں کے ذریعہ بے تحاشہ پیٹا گیا تھا۔
یادرہے کہ 3 اکتوبر کو گجرات کے وڈودرا کےساولی قصبے کی سبزی منڈی میں میلادالنبیﷺکے پیش نظرجھنڈے لگائے جانے پر ہندو برادری نے اعتراض جتایا تھاکہ اس سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہورہے ہیں۔اس معاملہ میں دوطبقوں کےدرمیان لڑائی چھڑ گئی تھی۔درگا پوجا پنڈال پر پتھراؤ کے الزام میں 43 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور 40 لوگوں کوگرفتار کیا گیا۔گرفتار شدہ ملزموں کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعات قتل کی کوشش،ہنگامہ آرائی،غیر قانونی اجتماع اور رضاکارانہ طور پر نقصان پہنچانے سمیت دیگردفعات کےتحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
وہیں سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی خود کئی سیکولر ذہن برادران وطن اٹھارہے ہیں کہ ہسپتال میں خاتون کی جانب سے پانچ منٹ کے لیے نماز پڑھنے اور میلادالنبیﷺ موقع پر جھنڈے لگانے سے جب مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں تو پھر سڑکوں اور ٹرینوں میں گربا کھیلنے سے کیوں کسی اور مذہب کے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟
دوسری جانب ریاست مدھیہ پردیش میں حکام نے مندسور کے پڑوسی گاؤں سورجنی میں دو برادریوں کےنوجوانوں کےدرمیان جھگڑے میں ملوث ہونے کے الزام میں مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے تین مکانات کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کردیا۔
مکتوب میڈیا کی خبر کے مطابق مدھیہ پردیش پولیس نے دعویٰ کیاکہ مسلم نوجوانوں نے ہندو تہوار نوراتری میں خلل ڈالا جبکہ مسلم خاندانوں نے پولیس کے دعوے کی تردید کی۔
مدھیہ پردیش پولیس نے کہاکہ مندسور ضلع انتظامیہ اور پولیس نے منگل کے روز تین افراد کے مکانات کو منہدم کردیا جن پر ہفتہ کے آخر میں گربا پنڈال پر پتھراؤ کرنے اور منتظمین پر تیز دھار ہتھیار سے حملہ کرنے کا الزام تھا۔عہدیداروں نے کہا کہ مکانات غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے اس لیے ہم نے انہیں منہدم کردیا۔مندسور کےسب ڈویژنل مجسٹریٹ سندیپ شیوا نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ ہم تمام ملزمان کی جائیداد کے کاغذات کی جانچ کررہے ہیں اور اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔اس معاملہ میں سرجانی گاؤں کے 19 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے پولیس نے اب تک 11 افراد کو گرفتار کرلیاہے۔منہدم کیے گئے مکانات میں اس کیس کے ایک ملزم سلمان خان کا مکان بھی شامل ہے۔
صحافی و ریسرچ اسکالر آصف مجتبیٰ نے اس بلڈوزر کارروائی کاویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”مسلمانوں کو نیچا دکھانا،ان پرجھوٹے الزامات لگانا اور ان کے گھروں کو دن دہاڑے گرانا کتنا آسان ہوگیاہے۔اگرکسی پر کوئی الزام عائد بھی کیا گیا تو عام قانونی راستہ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟یہ فرقہ وارانہ سلوک مکمل طور پر اسلامو فوبک ہے”۔
In Surajni village , some 35 kms from Mandsaur in Madhya Pradesh, a minor scuffle between youths of two communities resulted in a demolition drive of Muslim houses. 3 Muslim houses were demolished. (1/2) pic.twitter.com/UKMPkoQ2pm
— Aasif Mujtaba (@MujtabaAasif) October 4, 2022