چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کے "ابا جان” والے بیان کے خلاف بہار کی عدالت میں درخواست دائر

بین ریاستی خبریں قومی خبریں

چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کے "ابا جانوالے بیان کے خلاف بہار کی عدالت میں درخواست دائر
سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کے ذریعہ کی مذمت،سوشل میڈیا پر بھی مذمت جاری

مظفرپور :13۔ستمبر (سحرنیوزڈاٹ کام)

اتر پردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے خلاف آج ریاست بہار کے مظفر پور کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔چیف جوڈیشل مجسٹریٹ،مظفر پور،بہار کی عدالت میں چیف منسٹر اتر پردیش آدتیہ ناتھ کے کل کُشی نکر کی ایک تقریب میں ” ابا جان ” والے اس توہین آمیز ریمارک کے خلاف ایک مقامی سماجی جہد کار تمنا ہاشمی نے پٹیشن دائر کرتے ہوئے عدالت سے کہا ہے اس ریمارک کے ذریعہ مسلم طبقہ کی اہانت کی گئی ہے۔ HamareAbbaJaan#

تمنا ہاشمی جو ماضی میں کئی سیاستدانوں کے خلاف مقدمات دائر کرتی آئی ہیں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ چیف منسٹر اتر پردیش آدتیہ ناتھ کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سلسلہ میں مختلف آئی پی سی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔امکان ہے کہ اس پٹیشن پر مظفر پور کی عدالت میں سماعت کی جائے گی

یاد رہے کہ کل اتوار کو اترپردیش کی ترقی کے دعوؤں پر مشتمل ایک اشتہار انگریزی کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس کے صفحہ اول پر شائع ہوا تھا جس کا مضحکہ آج تک سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس پر اڑایا جارہا ہے۔

اس اشتہار میں یوپی کی ترقی کے دعوے کے ساتھ جس فلائی اوور بریج اور ہوٹل کی ایک عالیشان عمارت کو اترپردیش کا دکھایا گیا تھا وہ دراصل مغربی بنگال کے کولکتہ کی تصاویر تھیں جبکہ اسی اشتہار میں جس دھواں اٹھاتی ہوئی فیکٹری اور اس کے ملازمین کو دکھایا گیا تھا وہ دراصل امریکہ کی ایک فیکٹری بتائی جارہی ہیں جو کہ 2018ء سے مختلف جگہوں پر استعمال ہوتی آرہی ہے۔

اتوار کا دن سوشل میڈیا پر اتر پردیش حکومت کی جانب سے شائع شدہ اس اشتہار کو خوب مزاق کا موضوع بنایا گیا۔

تاہم انڈین ایکسپریس نے فوری اتوار کو ہی اس سلسلہ میں معافی مانگتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اشتہار میں تصویروں کا انتخاب اخبار کی ٹیم کی غلطی ہے اور اس اشتہار کو سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس سے ہٹالیا گیا ہے۔

 چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنر جی نے ابھی اس انگریزی اخبار کے اشتہار کو مذاق کا موضوع بناتے ہوئے کہا کہ جس ریاست کو بدنام کیا گیا اسی ریاست کی ترقی کو آدتیہ ناتھ اب اپنی ریاست کی ترقی کے طورپر پیش کررہے ہیں۔جبکہ ممتا بنرجی کے بھتیجے و رکن پارلیمان ابھیشیک بنرجی نے اس اشتہار کو ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے۔

اس اشتہار کے معاملہ میں چیف منسٹر اتر پردیش آدتیہ ناتھ کو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلوں پر ٹرول کیا جارہا ہے اسی فضیحت کے چلتے وقفہ وقفہ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو حقارت آمیز الفاظ سے نوازتے رہتے ہیں۔

اتوار کو سوشل میڈیا کے تقریباً تمام پلیٹ فارمس پر مذاق کاموضوع بننے والے چیف منسٹر اتر پردیش آدتیہ ناتھ نے اتوار کے دن ہی اتر پردیش کے کُشی نگر میں ایک تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ 2017 سے جب سے وہ اترپردیش کے اقتدار پر آئے ہیں تب سے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کیا جارہا ہے۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بی جے پی حکومت سب کا ساتھ،سب کا وکاس پر عمل کررہی ہے۔

وہیں آدتیہ ناتھ نے اپنے اس خطاب میں یہ اہانت آمیز ریمارک کیا کہ 2017ء سے پہلے غریب عوام میں تقسیم کیا جانے والا سرکاری راشن وہی لوگ کھاجایا کرتے تھے جو " ابا جان ” کہتے ہیں۔!! اور اس وقت سارا سرکاری راشن بنگلہ دیش اور نیپال پہنچ جاتا تھا اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے چیف منسٹر بننے کے بعد ہی غریبوں میں راشن کی تقسیم کا نظام درست ہوا ہے۔

اب یہ بات ساری دنیا اور خود چیف منسٹر آدتیہ ناتھ جانتے ہیں کہ مسلمان بچے ہی اپنے والد کو”ابا جان” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں!! 

چیف منسٹر اترپردیش کے اس نازیبا ریمارک کے بعد سوشل میڈیا صارفین اس کی مخالفت میں ہیش ٹیگ HamareAbbaJaan# چلارہے ہیں۔جن میں بڑی اور اہم شخصیتوں کے علاوہ برادران وطن کی بڑی تعداد شامل ہے۔گجرات کے مشہور تاجر و سابق چانسلر مولانا آزاد نینشل اردو یونیورسٹی(مانو) ظفر سریش والا، مشہور صحافی ویرسنگھوی اور عارفہ خانم کے ٹوئٹر ہیش ٹیگ یہاں پیش ہیں۔

دوسری جانب ایک مخصوص طبقہ  کی جانب سے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے اس بیان کی لیپا پوتی کے طور پر کہا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ ریمارک سابق چیف منسٹر اتر پردیش اکھلیش یادو اور ان کے والد سابق چیف منسٹر ملائم سنگھ یادو کی جانب ہو؟

چیف منسٹر اتر پردیش آدتیہ ناتھ کے اس بیان کی سوشل میڈیا پر سخت مذمت کرتے ہوئے لکھا جارہا ہے کہ بی جے پی سوائے مذہبی منافرت پیدا کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکتی!

اس سلسلہ میں سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے آدتیہ ناتھ کے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھاہے کہ ” میں نے ہمیشہ کہتا ہوں کہ بی جے پی کبھی بھی ترقی کے ایجنڈہ پر انتخابات کا سامنا نہیں کرسکتی وہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم، بیانات اور فرقہ پرستی کے سہارے انتخابات میں مقابلہ کرتی ہے۔یہ دیکھیں ویڈیو دوبارہ منتخب ہونے کے لیے چیف منسٹر کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے سارے ہندووں کے حصہ کا راشن کھالیا ہے۔”

سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب جبکہ 2022ء کے اوائل میں اترپردیش اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں تو اس طرح کے بیانات کے ذریعہ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی لؤ کو بھڑکایا جارہاہے۔اور دونوں طبقات کے درمیان پیدا کی گئی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے!!

کیونکہ دس ماہ سے دہلی سمیت ہریانہ اور اترپردیش میں احتجاج کررہے کسانوں نے بھی اب اترپردیش میں بی جے پی کے خلاف انتخابی مہم چلانے کا اعلان کردیا ہے۔اترپردیش کے مظفرنگر میں جاریہ ماہ منعقدہ کسانوں کی پنچایت انتہائی کامیاب رہی ہے جس میں شریک لاکھوں کسانوں نے قومی یکجہتی کے فروغ کا عہد لیا ہے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گزشتہ سال اچانک نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے باعث سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ معصوم بچوں اور سامان کے ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں سے پیدل طئے کرکے اترپردیش پہنچنے والے مزدورں، کوویڈ کی دوسری لہر کے دؤران اترپردیش میں علاج کی عدم سہولت،ہسپتالوں،شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کے باہر کوویڈ متاثرین اور مرنے والوں کی قطاروں،ہسپتالوں میں بستروں، آکسیجن، ادویات اور کوویڈ سے مرنے والوں کی لاشوں کو جلانے کے لیے لکڑی کی قلت، گنگا میں تیرتی اور ریت میں دبائی گئیں کوویڈ سے مرنے والوں کی نعشیں۔

اور ساتھ ہی کئی بے گناہوں بشمول صحافیوں کے خلاف یواے پی اے (ملک دشمن سرگرمیوں والا قانون) کا بے دریغ استعمال،موب لنچنگ، گائے اور مذہب کے نام پر معصوم لوگوں پرحملوں کے واقعات کا سارا مواد اپوزیشن جماعتیں ریاستی انتخابات میں بی جے پی  کے خلاف استعمال کرسکتی ہیں!؟ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے