مسلم لڑکی غیرمسلم لڑکے کیساتھ شادی کیلئے بضد،معاملہ پولیس تک پہنچا،دونوں فرقوں کے درمیان پتھراؤ
اندور/مدھیہ پردیش:
6۔اپریل۔(سحر نیوزڈاٹ کام)
مسلم معاشرہ میں بالخصوص مسلم لڑکیوں کی جانب سے غیر مسلم لڑکوں کیساتھ عشق ، پیار اور محبت کے اندھے کھیل میں جہاں قوم بدنام ہورہی ہے وہیں مسلم معاشرہ کے چند والدین کی تربیت پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
لڑکیوں کو حد سے زیادہ آزادی ،سوشل میڈیا کا بے دریغ اور غلط استعمال اس پر نام نہاد قائدین کی اس مسئلہ سے چشم پوشی قوم کو اندھے کنویں کی جانب ڈھکیل رہی ہے!
آئے دن ایسے کئی واقعات میڈیا اور سوشل میڈیا پر قوم کیلئے باعث شرمندگی بن رہے ہیں پیار کے نام پر چند مسلم لڑکیاں دھوکہ ،فریب اور ہوس کی شکار ہوکر ارتداد سے بھی گریز نہیں کررہی ہیں۔
دوسری جانب لؤجہاد کا ہوا کھڑا کرکے اسکے خلاف قوانین بنائے جارہے ہیں اس پربھی آج تک قوم کے نام نہاد قائدین اور ذمہ داران نے اپنے معاشرہ میں ہونے والی اس بے راہ روی اور ارتداد کے واقعات کو کوئی نام نہیں دیا ہے۔!!
مدھیہ پردیش کے چھند واڑہ میں چند دن قبل ہی پیار کے نام پر مرتد ہونے والی مسلم لڑکی رضوانہ کے نام نہاد شوہر کے ہاتھوں عبرتناک انجام کی خبر وں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مدھیہ پردیش کے ہی اندور میں کل رات پیش آنیوالے ایک اور واقعہ نے معاشرہ کی چند لڑکیوں کی بے راہ روی ، مذہب بیزاری اور والدین کی غفلت کو اجاگر کرکے رکھ دیا ہے۔!

اس واقعہ کی تفصیلات کے بموجب کل پیر کی رات دیر گئے ایک مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے کیساتھ عشق اور اسی کیساتھ شادی کے اصرارکے مسئلہ پر صدر بازار تھانہ کے علاقہ میں دو فرقے آمنے سامنے ہوگئے اور یہ واقعہ فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کرگیا دونوں طرف سے ایک دوسرے پر سنگباری بھی کی گئی۔
لڑکی اور لڑکا دونوں اپنے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے،اطلاع پر دونوں فرقہ کے عوام کی بڑی تعداد بھی پولیس اسٹیشن پہنچ گئی حالات کو بگڑتا دیکھ کر پولیس نے دونوں فرقہ کے لوگوں کو ہلکی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن کے پاس سے منتشر کردیا بعد ازاں پولیس نے لڑکا اور لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا۔
جسکے دؤران مسلم لڑکی بضد تھی کہ وہ غیرمسلم لڑکے کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے۔اس مسلم لڑکی نے پولیس سے یہاں تک کہہ دیا اگر اس کو لڑکے سے الگ کیاجاتا ہے تو وہ خودکشی کرلے گی۔

صدر بازار پولیس کے مطابق یہ مسلم لڑکی (ماہ ِرخ،فرضی نام )ایک ہندو لڑکے کے ساتھ گھر سے فرار ہوگئی تھی۔جب رات کے وقت پتہ چلا تو لڑکی کے والدین اور دیگر رشتہ دار لڑکی اور لڑکے کو لیکرپولیس اسٹیشن پہنچے ،تو انکے سامنے ہی لڑکی بضد تھی کہ وہ ہندو لڑکے کیساتھ جانا چاہتی ہے۔
اس واقعہ کی اطلاع عام ہوتے ہی ایک ہندو تنظیم کے اراکین اور اس علاقہ کے مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوگئ،دونوں فرقوں کے درمیان بحث و تکرار کے بعددونوں طرف سے ایک دوسرے پرپتھراؤبھی کیا گیا اورتھانہ کا محاصرہ کرلیا۔
صورتحال کی اطلاع کیساتھ ہی ضلع ایس پی مہیش چندر جین اور آشوتوش باگری زائدپولیس فورس کے ساتھ جائے مقام پرپہنچ گئے اور حالات کو قابو میں کرلیا۔
پولیس کے مطابق دو دن قبل لڑکی کے والدین نے اس لڑکی کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں درج کروائی تھی۔ پولیس نے اس لڑکی کا موبائل لوکیشن کا پتہ آر بندو علاقہ کا لگایا اور وہاں پہنچ کر پولیس نے ان دونوں کو اپنے تحفظ میں پولیس اسٹیشن منتقل کیا اس وقت بھی دونوں گروہ جمع ہوگئے اور پتھراؤ کی واردات پیش آئی۔
اس معاملہ میں لڑکی کا بیان ہے کہ وہ اور اس کا عاشق قانونی طور پر بالغ ہیں اور ایک ساتھ رہناچاہتے ہیں۔لڑکی کا ایسا ہی ایک ویڈیو بھی سامنے آیا ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ اس کی عمر 21 سال ہے اور وہ قانونی طورپر بالغ ہے اور اپنی زندگی کا فیصلہ وہ خود کرسکتی ہے اس ویڈیو میں لڑکی کہہ رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ فرار ہوئی ہے اور اس پر کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
اور وہ اس ہندو لڑکے سے شادی کرکے اسکے ساتھ ہی زندگی گزارنا چاہتی ہے،لڑکی نے اس ویڈیو میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر اسکے والدین کی جانب سے اس پر تشدد کیا گیا یا پھر کسی اور سے شادی کرنے کیلئے مجبور کیا گیا تو وہ خودکشی کرلے گی کیونکہ وہ سوائے اس ہندو لڑکے کہ کسی اور سے شادی نہیں کرے گی۔
وہیں ایسے واقعات صرف اندور ہی نہیں بلکہ ملک کے کئی شہروں میں لگاتار پیش آرہے ہیں اسکے لیے ذمہ دار کون ہیں؟ لڑکیوں کو کھلی آزادی دینے والے انکے ماں،باپ؟
یا معاشرہ میں پھیلی ہوئی جہیز کی لعنت؟ یا پھر ان لڑکیوں کی عصری تعلیم؟ یا پھر نوجوان نسل کی دین سے دوری؟ یا پھر قوم کی قیادت کے دعویدار قائدین یا علماء کرام؟؟
جو کبھی کبھار اصلاح معاشرہ کے جلسہ منعقد کرتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ختم ہوگئی!! ایسے ارتداد کے واقعات کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں ایک منظم طریقہ سے مہم چلائی جائے، نئی نسل کو دین اور اسلام سے واقف کروایا جائے۔
شہروں،ٹاؤنس اور محلوں میں جلسوں کے انعقاد کے ذریعہ نوجوان نسل تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ غیر مسلم لڑکوں یا لڑکیوں کیساتھ عشق ،محبت اور پیار صرف سینما کے پردہ پر ہی اچھے لگتے ہیں حقیقی زندگی سے ان کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور جب عشق کا جنون چند ماہ اور سال کے بعدسر سے اُترجاتا ہے تو سوائے پچھتاوے کہ کچھ اؤر ہاتھ نہیں آتا نہ سماج کے رسم و رواج انہیں قبول کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ!
قوم کے ذمہ داران !! ایک دوسرے کیساتھ کافر، کافر کا کھیل کھیلنے والے، اپنی اپنی دیڑھ اینٹ کی مساجدوں تک محدود ،مسالک کی لڑائی میں الجھے ہوئے اور ایک دوسرے کو جہنمی ہونے کی سند دینے کے کام سے اگر فارغ ہوچکے ہوں تو اس جانب غور کریں!! ورنہ
تمہاری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!

