مظلوم قوم کی آہیں اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات!وزیراعظم مودی کے نام ایک کھلا خط

مضامین و رپورٹس

محترم جناب نریندرمودی صاحب
عزت مآب وزیراعظم ہند
آداب!
یقینا” ہم سب کی طرح آپ بھی خیریت سے نہیں ہوں گے ہم اپنے اور اپنے ارکان خاندان کے لئے پریشان ہیں اور آپ ہندوستان کی سوا سو کروڑ آبادی کے لئے فکرمند ہوں گے۔

ایک تو کورونا کی یکے بعد دیگر لہر پر لہر،اس وباء سے نمٹنے میں بڑی حد تک بدانتظامی، کچھ آپ کی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ کی لاپرواہی اور ہٹ دھرمی نے ملک کے اندرونی حالات کو بے قابو کردیا۔ ایک طرف ملک کے عوام میں ناراضگی بڑھتی جارہ ہے،دوسری طرف عالمی برادری میں ہمارے مہان بھارت کا اس طرح سے اپمان کیا جارہا ہے کہ یہاں کی بین الاقوامی پروازوں پر بیشتر ممالک نے پابندی عائد کردی ہے۔

حتی کہ آئی پی ایل میں حصہ لینے والے آسٹریلوی کرکٹرس کو ملک واپس ہونے پر جیل بھیجنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ انہیں مالدیپ میں وقت گزارنا پڑا اور اپنے ملک واپس ہونے کے بعد کورنٹائن میں بی سی سی آئی کے خرچ پر کئی دن گزارنا پڑا۔

انٹرنیشنل میڈیا بھی ہاتھ دھوکر آپ کے پیچھے پڑگیا ہے۔ حتیٰ کہ جس امریکہ میں آپ کے دو تاریخ ساز پروگرام ہوئے تھے،اسی امریکہ کی ایک ڈاٹا انٹلیجنس کمپنی نے اپنی سروے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ آپ کی مقبولیت بہت تیزی سے گھٹتی جارہی ہے۔ اس میں کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ ایک فطری سی بات ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہمالیہ کی تسخیر آسان ہے، وہاں دیر تک ٹھہرنا بہت مشکل ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ بلندی پر پہنچنے والا ہر کوئی پستی میں آگرتاہے۔ بہت سی مثالیں ہیں کہ بعض ہستیوں کو مقام ملا ہے تو انہوں نے اس مقام کی لاج رکھ لی ہے، بلکہ اپنے اخلاق، کردار اور اپنے کام سے اُس مقام، منصب یا عہدہ کا وقار بڑھایا ہے۔

آر ایس ایس کے ایک کارکن سے گجرات کے اپوزیشن لیڈر تک گجرات کے چیف منسٹر سے ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدہ تک جس طرح سے آپ پہنچے ہیں، یقینا ًاپنی جگہ وہ ایک تاریخ ہے۔ آپ کی قیادت میں 2014 اور پھر 2019ء میں آپ کی جماعت نے جو کامیابی حاصل کی وہ بھی ایک تاریخ ساز ریکارڈ ہے۔

ایک طاقتور لیڈر کی حیثیت سے عالمی برادری میں آپ ابھرےاور جن ممالک نے آپ کے ماضی کی بنیاد پر اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی انہی ممالک نے آپ کو عزت اور وقار کے ساتھ اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی۔ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ انہی ممالک میں اب پہلے جیسی قدر و منزلت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

اپنے سات سالہ دورِ اقتدار میں یقیناً آپ کو چیالنج کرنے والا آپ کی پارٹی میں کوئی نہیں تھا اگرچہ کہ آپ کی بہت سی پالیسیوں سے آپ کی پارٹی والوں کو بھی اختلاف رہا ہوگا۔ مگر لب کشائی کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور پھر کورونا کی پہلی اور دوسری لہر سے موثر انداز میں نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے آپ کی اپنی پارٹی کے بعض ارکان کو اپنے خیالات کے اظہار کی ہمت دی ہے۔

شاید اس لئے کہ جب ” تمام وسائل کے باوجود اپنوں کی مدد سے قاصر رہ جاتے ہیں” جب اپنے اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے ہیں تو پھر انسان کو اس بات کی پرواہ نہیں رہتی کہ اس کا آنے والا کل کیا ہوگا!! ایسا دہلی میں بھی ہورہا ہے اور اُترپردیش میں بھی۔

محترم وزیر اعظم صاحب! کورونا عالمی وبا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں! مگر جس طرح سے ہم بدنام ہوئے عالمی برادری کے سامنے نااہل ثابت ہوئے اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے؟ کیا کبھی پوری ایمانداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے کا موقع ملا ہے کہ آخر ایک کے بعد ایک ایسے حالات کیوں پیدا ہورہے ہیں جس سے آپ کی شہرت، غیر معمولی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف آرہا ہے۔

جو لوگ آپ پر جان نچھاور کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتے تھے آج ان کی اکثریت آپ کے خلاف کیوں ہوگئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک مظلوم قوم کی آہیں اپنا اثر دکھانے لگی ہیں!!

اس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ گجرات فسادات سے اکثریتی طبقہ میں آپ کا ایک ایسا دیومالائی امیج بن گیا جو ناقابل تسخیر سمجھا جانے لگا۔ اسی امیج نے آپ کو دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچایا۔ عام طور پر سیاسی قائدین ایک فرقہ میں اپنی مقبولیت کی بناء پر کامیابی حاصل کرتے بھی ہیں تو اقتدار آنے کے بعد وہ اپنے حلقہ کے ہر طبقہ کے لئے یکساں طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔

آپ بھی صرف اکثریتی طبقہ کے وزیر اعظم نہیں ہیں،سواسو کروڑ آبادی والے ہندوستان کے وزیراعظم جس میں مسلمانوں کی آبادی 25 تا 30کروڑ ہے۔

آپ نے اور آپ کی پارٹی نے جو جو انتخابی وعدے کئے تھے اُسے کسی نہ کسی طریقہ سے پورا کیا۔ چاہے وہ رام مندر کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب ہو، یا سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ ایک طبقہ کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش۔ وعدوں کی تکمیل کے لئے جمہوریت کی عمارت جن ستونوں پر ٹکی ہوئی تھی اُن ستونو ں کو کھوکھلا کردیا گیا۔

نہ عدلیہ کا وقار رہا، نہ نظم و نسق کا اور رہی بات میڈیا کی تو اس کے ذکر اور تصور سے ہی اب کراہیت ہونے لگتی ہے کیوں کہ نیشنل میڈیا کے اینکرس اور صحافیوں نے صحافت کے پیشے کوداغدار اور لااعتبار بنادیا۔

ایک طاقتور وزیراعظم ہونے کے باوجود ملک میں امن و قانون کی صورتحال کم از کم اقلیتوں کے لئے تشویشناک ہوتی گئی۔ ماب لنچنگ کے واقعات، شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ پولیس کا سلوک، این آر سی کا خوف‘ مسلم عبادتگاہوں پر منڈلاتے ہوئے خطرات نے اگر مسلمانوں کے حکومت پر اعتماد کو متزلزل کیا تو اِن حالات کی وجہ سے خود حکومت کی بنیادوں میں بھی دڑاڑیں پڑگئیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو مظالم کی انتہا کردی اور آج ان کی ریاست اُترپردیش کے حالات کی وجہ سے خود یوگی آدتیہ ناتھ کا جو حال ہورہاہے وہ عبرتناک ہے۔

محترم وزیراعظم! ہمارا یہ ایقان ہے اور تقریباًسبھی مذاہب کے ماننے والے اس بات سے متفق ہیں کہ کسی ملک کی خوشحالی یا بدحالی کا دارو مدار اس ملک کے حکمران کے طرز عمل پر ہوتا ہے۔ جس سرزمین پر ظلم بڑھ جاتا ہے، انصاف نہیں ہوتا تو پھر کبھی آسمانی بلائیں نازل ہوتی ہیں،تو کبھی زمینی۔ کبھی طوفان تو کبھی زلزلے تو کبھی کورونا جیسی وبائیں پھیلتی ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے گروجی شری ایل کے اڈوانی نے 1990ء میں رام رتھ یاترا نکالی تھی‘ ملک بھر میں فسادات ہوئے تھے۔ گجرات میں سب سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم ہوا۔ چوراہوں پر مسلم خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرکے اس کی ویڈیو فلمیں وائرل کی گئیں،پھر اس کے بعد کیا ہوا! گجرات میں طاعون (پلیگ) کی وباء اس تیزی سے پھیلی کہ اس کی وجہ سے ہندوستان عالمی برادری میں اچھوت بن گیا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد لاتور کے زلزلے کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے!اسی علاقے میں تو بہت ساری منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اور بہت سارے سورما آناًفاناً زلزلے کی زد میں آکر ہمیشہ کے لئے دفن ہوگئے۔

شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ایک طبقہ سے اس کے بنیادی حقوق چھیننے کی کوشش کا آغاز ہوا اور اسی کے ساتھ کوروناکی پہلی لہر شروع ہوئی۔ جن کے ضمیر زندہ ہیں،جو حالات کو سمجھتے ہیں، انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ملک کے حالات جس تیزی سے بگڑے ہیں،جس تیزی سے تباہی آئی ہے یقیناً اس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومت نے اپنے فرائض کو ایمانداری سے انجام دینے میں غفلت برتی ہے۔

محمد اخلاق، تبریز انصاری اور بہت سوں کی چیخیں اور ان کے ارکان خاندان کی آہ و بکا، جنید کے والدین کے خشک آنسو نے بھی اپنا اثر دکھایا ہے۔ مسلم عبادت گاہوں سے متعلق عدالتی فیصلے یکطرفہ ہورہے ہیں۔ وقتی طور پر کسی ایک کو فائدہ ضرور ہوگا مگر تاریخ میں وہ ہمیشہ کے لئے اپنی ناانصافی کے لئے یاد رکھے جائیں گے۔

اترپردیش میں بارہ بنکی میں سوسالہ قدیم مسجد کو جس طرح سے شہید کردیا گیا‘ اس سے اگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو نہ صرف ریاستی حکومت بلکہ مرکزی حکومت کا امیج بھی داغدار ہوا ہے۔

انقلاب کے ایڈیٹر شکیل حسن شمسی کے الفاظ میں ایک ایسے وقت جبکہ گنگامیں تیرتی لاشوں سے عالمی سطح پر ہونے والی بدنامی سے بچنے اور عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لئے اترپردیش حکومت اس مسجد کی شہادت کے ذریعہ فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر کرناچاہتی ہے۔

محترم وزیراعظم! لگام دیجئے اپنے ماتحتوں کو، مسلم دشمنی اور غیر ضروری انتقام کی آگ میں یہ خود جھلس جائیں گے۔مسلم دنیا میں آپ کی جو ساکھ ہے وہ بھی متاثر ہوگی۔ ابھی اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے موقف نے آپ کی امیج کو سنبھالا ہے مگر اُترپردیش اور دوسری بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور مسلم عبادت گاہوں کو شہید کرنے کے واقعات سے یہ شبیہ بگڑجائے گی۔ مسلمان تو صدیوں سے جبر و ستم سہنے کا عادی رہاہے۔ وہ گرتاہے، اٹھتاہے پھر چلتاہے۔

گجرات کے چیف منسٹر سے لے کر ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدہ تک آپ کی جو بھی امیج رہی ہو ہمارا یہی خیال ہے کہ کالنگا کی لڑائی میں انسانی جانوں کے نقصان کو دیکھ کر راجہ اشوک پر اس قدر اثر ہواتھا کہ اس نے لڑائی تباہی و بربادی سے توبہ کرلی اور اہنسا کا علمبردار بن گیا اور اشوک دی گریٹ کہلایا۔

ہم ہر روز کالنگا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ آخر ہم پر اس کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن آئے گا اور آپ کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ نہ تو ہمیشہ یہ عمر رہے گی اور نہ اقتدار باقی رہے گا۔

خود آپ کے اپنے قریب کے ساتھی جو کل تک گلے پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے تھے آج کہاں ہیں؟
اگر ہم ایک لمحہ کے لئے آگے کا سوچ لیں تو بہت سی تبدیلی ہوسکتی ہیں۔ ہم بھی بدلیں اس ملک کے حالات کو بدلیں‘ یہ ملک آپ کا بھی ہے ہمارا بھی ہے۔

جئے ہند،خیراندیش: سید فاضل حسین پرویز

چیف ایڈیٹر ، گواہ اردو ویکلی،حیدرآباد
۔۔۔۔فون: 9359381226

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے