عاشق کیلئے سات افراد خاندان کےقتل میں ملوث شبنم، پھانسی کی منتظر
متھرا جیل میں پھانسی دئیے جانے کی تیاریاں،بیٹےنے کی صدر جمہوریہ سے رحم کی اپیل
لکھنو :19 ۔فروری (ایجنسیاں/سحرنیوز ڈیسک)
کہتے ہیں کہ محبت ، سیاست اور جنگ میں سب جائزہے ! وہیں محبت کو ایک پاک جذبہ بھی کہا جاتا ہے جو بناء کسی مفاد کسی سے بھی ہوجاتی ہے محبت کے کئی روپ ہوتے ہیں لیکن اسی محبت کے نام کو داغدار کرنے والی شبنم کے بیٹے نے آج صد جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند سے اپنی ماں کی پھانسی کی سزاء کو منسوخ کرنے کیلئے رحم کی درخواست دی ہے! آئیے پہلے جان لیتے ہیں کہ یہ شبنم آخر ہے کون ؟

تو جواب ہے یہ ہے کہ شبنم نے محض اپنے عاشق کو پانے کیلئے اپنے ہی والدین سمیت سات افراد خاندان کو بے دردی کیساتھ قتل کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلادیا ! کیا کوئی عورت اتنی خود غرض سے بھی ہوسکتی ہے کہ محض اپنے عاشق کیلئے پورے خاندان کا کلہاڑی سے گلا کاٹ کر صفایہ کرسکتی ہے ؟
یہ کوئی کہانی نہیں بالکل سچا واقعہ ہے جو 2008ء میں اتر پردیش کے امروہہ ضلع میں پیش آچکا ہے اورشبنم کو پھانسی کی سزاء بھی سنائی جاچکی ہے جس کی رحم کی درخواست صدر جمہوریہ ہند مسترد بھی کرچکے ہیں وہیں اب اسکے بیٹے نے دوبارہ صدر جمہوریہ سے اپنی ماں کے لیے رحم کی درخواست پیش کی ہے ۔
اس سارے خونی واقعہ کی تفصیلات کے مطابق امروہہ ضلع ،باون کھیڑی حسن پور گاؤں میں شوکت علی ، پیشہ ٹیچر شوکت علی کے خاندان میں ان کی بیوی ہاشمی ، بیٹا انیس ، راشد ، بہو انجم ، بیٹی رابعہ ، شبنم اور دس ماہ کا پوتا عرش رہتے تھے۔
شبنم پوسٹ گرائجویٹ ٹیچر تھی تاہم کہتے ہیں نہ کہ عشق اندھا، گونگا اور بہرہ ہوتا ہے تو شبنم بھی سلیم نامی نوجوان کے عشق میں گرفتار ہوگئی جو لکڑی کاٹنے کی مشین میں ملازمت کرتا تھا اور پانچویں کلاس تک پڑھا ہوا تھا ۔ان دونوں کا عشق پروان چڑھا اور دونوں شادی کرنے کے خواہشمند تھے لیکن شبنم کے والدین اور بھائیوں نے اس کی مخالفت کی تاہم عشق کی یہ بیل پروان چڑھتی ہی گئی۔ اور والدین کی تاکید کے باوجود دونوں کا ملنا جاری رہا۔
اپنے والدین اور بھائیوں کی مخالفت پر شبنم کے دماغ میں ایک شیطانی منصوبہ ابھرا جس کا دور دور تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اسی کے ساتھ شبنم نے اپنے عاشق سلیم کو کسی بھی حال پانے کیلئے سلیم کیساتھ مل کر ایک خوفناک منصوبہ تیار کرلیا ۔
بالاآخر شبنم کے سات افرادخاندان کی زندگی میں 14 اپریل 2008 ء کی وہ آخری سیاہ رات بھی آگئی جس کا تصورکرکے ہی روح کانپ جاتی ہے ۔اس رات شبنم نے اپنے عاشق سلیم کواپنے گھر بلالیامنصوبہ کے تحت وہ پہلے ہی اپنے سارے افراد خاندان کو دھوکہ سے بڑی مقدار میں کوئی نشیلی دواء دے دی تھی جسکے اثر سے بد نصیب افراد خاندان گہری نیند میں پہنچ گئے تھے۔
اس واقعہ کا درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس رات اس کی بہن رابعہ بھی والدین کے گھر آئی ہوئی تھی اور رات وہ بھی وہیں مقیم تھی۔
منصوبہ کے مطابق شبنم اور اسکے عاشق سلیم نے اسی رات شبنم کے والد شوکت علی ، والدہ ہاشمی ،دونوں بھائی انیس ، راشد ، بھابھی انجم ، رابعہ اور دس ماہ کے اپنے بھتیجہ عرش کو کلہاڑی کی مدد سے سفاکی کیساتھ قتل کردیا۔
سارے خاندان کے قتل کے باعث اس وقت سارے ضلع ، ساری ریاست اور ملک بھر میں ہاہا کار مچ گئی۔بالاآخر 19 اپریل 2008ء کو حسن پور پولیس نے شبنم کے عاشق سلیم کو گرفتار کرلیا اور تالاب سے قتل میں استعمال ہونے والی کلہاڑی اور خون لگے کپڑے برآمد کرلیے اسکے فون کال ریکارڈس کی بنیاد چند دن بعد اس وقت 25 سالہ شبنم کو بھی پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے دونوں کو جیل بھیج دیا۔
اسی دوران جیل جانے کے سات ماہ بعد شبنم نے جیل میں ایک لڑکےکو جنم دیا۔ یہ لڑکا کئی سال شبنم کے ساتھ جیل میں ہی رہا۔اس معاملہ میں ثبوت و شواہد کی بناء پر عدالت نے شبنم اور اسکے عاشق سلیم کو اجتماعی قتل کے معاملہ میں پھانسی کی سزاء سنائی 2015 میں موت کی سزا سنائی جانے کے بعد شبنم نے اس بچے کو اپنے کالج کے دوست سیفی اور ان کی بیوی کے حوالے کردیا تھا۔
اس نے صدر جمہوریہ ہند سے بھی رحم کی درخواست کی جسے مسترد کردیا گیاتھا کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد کسی نے بھی اس میں گاؤں آج تک اپنی کسی لڑکی کا نام شبنم نہیں رکھا ۔اب شبنم کی پھانسی کی تیاریاں متھرا جیل میں کی جارہی ہیں اسکے لیے کسی بھی وقت وارنٹ پر دستخط ہوسکتے ہیں! بس اسکے لیے تاریخ اور وقت طئے کرنا ہے۔
شبنم 1947ء کے بعد آزاد ہندوستان کی پہلی ایسی خاتون ہوگی جسے پھانسی دی جائے گی کیونکہ آزادی کے بعد سے آج تک ملک میں کسی بھی خاتون کو پھانسی کی سزاء نہیں دی گئی ہے۔
یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا کہ اترپردیش کےشہر امروہہ کی عدالت نے 15 مئی 2010ءکو پھانسی کا فیصلہ صادر کیا تھا اور 21 مئی 2010ءکو پھانسی دیئے جانے کا وارنٹ بھی جاری کردیاگیا تھا تاہم اس کے وکلاء اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع ہوئے تھے۔
جہاں ہائیکورٹ نے اس فیصلہ کو برقرار رکھا تھا تاہم 2015ء میں شبنم اور سلیم کے وکیل راجو رام چندرن اورآنند گروور نے سپریم کورٹ میں اس وارنٹ کو خارج کرنے سے متعلق درخواست داخل کی تھی سپریم کورٹ نے اس وقت کہا تھا کہ پھانسی کی سزاء پر عمل کیلئے 6 دن کا وقت کم ہوتا ہے کیونکہ مجرموں کو اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے 30 دن کا وقت ہوتا ہے، شبنم اور سلیم سبھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی اگر قانونی لڑائی ہار جاتے ہیں تو اترپردیش کے گورنر اور اور صدر جمہوریہ سےوہ رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ان دونوں کی سزائے موت کوبرقرار رکھا تھا۔
اب جبکہ متھرا جیل میں شبنم کو پھانسی دئیے جانے کی تیاریا ں جاری ہیں ایسے میں کل سے قومی میڈیا میں یہ اطلاعات زیر گشت ہیں کہ اس کے بیٹے تاج جس کی عمر اب 12 سال ہوگئی ہے نے صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووندکو ایک مکتوب لکھتے ہوئے ان سے رحم کی درمندانہ اپیل کی ہے کہ اسکے مستقبل کیلئے اسکی ماں شبنم کو معافی دیتے ہوئے اس کی پھانسی کو سزاء کو منسوخ کیا جائے ۔ اب اس بات پر تجسس قائم ہے کہ صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند اس معصوم لڑکے کی رحم کی درخواست پر کیا فیصلہ کرتے ہیں جوکہ اپنی والدہ کے جرم سے واقف بھی ہے !!