دُلہن کی تلاش

Uncategorized

’سیرت نہ ہوتو عارض و رخسار سب غلط‘

سفینہ عرفات فاطمہ

ایک باکردار‘خوش اخلاق‘صوم و صلوۃ کی پابند‘ دیندار‘ امور خانہ داری میں ماہر‘انٹر کامیاب‘قبول صورت‘ 20 سالہ دوشیزہ کے لیے شریف خاندان کے نیک‘ بااخلاق‘ پڑھے لکھے‘ برسرروزگار لڑکے سے رشتہ مطلوب ہے
ایک انتہائی حسین وجمیل‘ویری ویری فیئر‘ سلمSlim‘ قد5.4‘گریجویٹ‘ 20 سالہ لڑکی کے لیے گریجویٹ‘پوسٹ گریجویٹ‘اندرون یابیرون ملک برسرروزگار لڑکے سے رشتہ درکارہے‘شادی معیاری کی جائے گی
رشتوں کے لیے شائع کیے جانے والے اشتہارات میں یہ فرق کیوں آگیاہے؟
کیوں گزشتہ دنوں لڑکی کے والدین اپنی لڑکی کی دینداری‘شرافت اورسلیقہ مندی کا اشتہار میں ذکر کرتے تھے اور آج انہیں یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ ان کی لڑکی سِلم‘درازقد ویری ویری فیئر اور خوبصورت ہے؟
کیا یہ فرق یوں ہی در آیا ہے‘یا اس کے پس پردہ ہمارے سماج کا میلان اور رجحان محرک بناہوا ہے؟یا ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں نے ان اشتہارات کو بھی بدل کررکھ دیا ہے؟
ہمارے معاشرے کا رجحان کس جانب ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کے انتخاب کامعیارکیاہے؟ آیا وہ ذہنی تحفظات کے ساتھ دلہن کی تلاش کرتا ہے؟دلہن کی تلاش نئے زمانے کا نیا معاملہ تو نہیں۔انسان خاندان کی تشکیل اور سماجی ضرورت کے لیے سینکڑوں برس سے شریک ِ حیات کی تلاش کرتا آیا ہے‘پھرنئی بات کیاہوئی؟کیوں ترجیحات بدلیں؟آج اخلاق قابل ِ ترجیح کیوں نہیں؟ کیانئے زمانے میں اخلاقیات نے اپنی چمک کھودی ہے یا یہ ماضی کا باب‘ اب حال کا حصہ بننے سے معذورہوچکاہے؟

پہلے گھر بہت ہی آسانی سے بس جایاکرتے تھے‘ چاہے لڑکاہویالڑکی‘والدین مناسب وقت پر مناسب جوڑتلاش کرکے ان کا نکاح کردیتے۔ان کی بھی ترجیحات ہوتی تھیں‘ان کی پسند نا پسند ہوتی تھی‘ایسابھی نہیں ہوتاتھا کہ بس جو بھی رشتہ سامنے آیااسے قبول کرلیا‘وہ اپنے تجربہ کی آنکھ سے دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے تھے۔مناسب وقت پر اپنے بچوں کا گھربساکر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے۔ کوئی برسرروزگار‘ اچھے خاندان کا نیک لڑکا نظر میں ہوتا تواسے اپنی لڑکی کے لیے قبول کرلیتے‘کسی قبول صورت‘سلیقہ مند‘بااخلاق لڑکی کا ذکرسنتے توفوراً اپنے لڑکے کے لیے اس کے گھر پیغام بھیج دیتے‘ لیکن آج شادی بیاہ کا یہ سہل اندازنئے زمانے کی لہروں میں کہیں گم ہوچکا ہے۔

بیرون ملک ملازمت کرنے والا ایک لڑکاشادی کے لیے دوبار اپنے ملک کا دورہ کرچکا ہے‘لیکن دونوں دفعہ اس کی شادی نہ ہوسکی۔اس کی کیا وجہ ہے؟اس کی بہنیں اور والدہ نہ جانے کتنی لڑکیوں کو دیکھ کر مسترد کرچکی ہیں۔جو لڑکی ان کے خوابوں میں بسی ہے وہ انہیں حقیقت میں نہیں مل رہی ہے۔ کوئی لڑکی اگر ویری فیئر ہے تو اس کا قد پست ہے‘کوئی اگر درازقد ہے تو اس کی رنگت سانولی ہے‘کوئی لڑکی اگرتمام خوبیوں کی حامل ہوتو اس کا خاندان اس لائق نہیں کہ اس سے رشتہ کیا جائے۔کئی لوگ اپنے سے معاشی طورپر کمتر خاندان سے رشتہ نہیں جوڑناچاہتے۔ اس کے علاوہ جب وہ دلہن کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کے کچھ ذہنی تحفظات بھی ہوتے ہیں۔جیسے سید لڑکی سے رشتہ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سید لڑکی سے اگر رشتہ ہوبھی جائے تو شوہر اور بیوی کی زندگی ناچاقی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کئی مفروضے‘کئی بے سروپا کی باتیں ان کے دماغ میں بسی ہوتی ہیں‘ جن کے سبب وہ کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے اور ایک اورلڑکی کے درپر دل آزاری کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
ایک اخبار میں لڑکے والوں کی جانب سے شائع شدہ 24 اخبارات کا ہم نے جائزہ لیا۔

ان 24اشتہارات میں سے 23 اشتہارات میں ویری فیئر‘ سِلم‘درازقد‘ خوبصورت اور مختلف گریجویشن سطح کی حامل ڈگریوں والی لڑکی کی فرمائش کی گئی تھی‘ صرف ایک اشتہار میں خوبصورتی کا ذکر نہیں تھا اور یہ شرط تھی کہ لڑکی ڈاکٹرہو‘ایک اشتہار میں لکھاتھا کہ لین دین کی ضرورت نہیں لیکن انہیں بی ایڈ لڑکی چاہیے‘اب انہیں بی ایڈ لڑکی کیوں چاہیے قارئین خود سمجھ سکتے ہیں۔ان 24 اشتہارات میں سے صرف ایک سرپرست کے سوا کسی کوبھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لڑکے کے لیے دیندار لڑکی کا مطالبہ کریں‘محض ایک اشتہار میں خوبصورتی کے علاوہ یہ بھی مطالبہ کیاگیاتھا کہ لڑکی دیندارہو‘ان میں سے ایک سرپرست کو خوبصورت‘درازقد‘سِلم کے علاوہ آسٹریلیا‘ یوکے امیگرینٹ یا ایم ایس سی ایم ایڈ‘بی ایس سی بی ایڈ لڑکی چاہیے‘ایک دوسرے اشتہارمیں لڑکے کے سرپرستوں نے خوبصورت لڑکی کے مطالبہ کے ساتھ اس بات کا ذکر کیاہے کہ بیرون یا اندرون ملک لڑکے کو settle کرنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ ان اشتہارات کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج ہرکسی کو اپنے لڑکے کے لیے ویری ویری فیئر‘سِلم‘ انتہائی خوبصورت اوردرازقد لڑکی چاہیے‘ اس کے علاوہ ان کی دیگرترجیحات بھی قارئین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔

شادی ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے‘ اس معاملے میں غیرسنجیدگی اورغیرحقیقت پسندی گھر بسانے کی بجائے گھر اجاڑسکتی ہے۔
خوابوں کی حسین وجمیل شہزادیاں اور تصورات کی سروقد‘ گوری رنگت کی حسینائیں اس سرزمین پرکم ہی بستی ہیں۔انسانوں کا رنگ روپ‘نین نقش‘موروثیت کے علاوہ ان کے علاقے کی آب وہوا اورماحول کے مرہون منت ہوتے ہیں‘ہم لوگ جس علاقے میں بستے ہیں وہاں اکثریت سانولے لوگوں کی پائی جاتی ہے‘ اب اگر ہر ایک کو انتہائی گوری اورسروقدلڑکیاں چاہئیں تووہ حقیقت کی نظرسے دیکھیں کہ ان کے اردگرد کیسے لوگ بستے ہیں؟کیاوہ خود یا ان کے گھر کے افراد یا ان کی بہنیں اوربیٹیاں ان تمام خوبیوں کی حامل ہیں جن کو وہ دلہن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ خوبصورتی کے جنون میں لوگ خوب سیرتی اور اخلاق کو نظرانداز کرنے لگے ہیں اور ان لڑکیوں کی زندگی ایک مذاق بنی ہوئی ہے جوقبول صورت‘پڑھی لکھی‘ امورخانہ داری میں ماہر‘ سلیقہ شعار تو ہیں لیکن ویری ویری فیئر‘ سِلم اورانتہائی حسین نہیں ہیں۔ان لڑکیوں کی تقریباً ہرروز لڑکے والوں کے سامنے نمائش ہوتی ہے‘وہ عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں‘شرم وحیا کے سبب کھل کر
اپنے والدین یاسرپرستوں سے یہ نہیں کہہ سکتیں کہ خدا کے واسطے ان حسن پرستوں کے سامنے ہماری پریڈ نہ کروایئے‘ ہماری عزت ِ نفس کو اس طرح مجروح نہ ہونے دیجئے‘ ہمیں بے جان چیزوں کی طرح خریداروں کے سامنے نہ سجائیے‘ ہمیں اس طرح بے قدروں کے سامنے قدر گنوانے پرمجبور نہ کیجئے۔

غریب اورمتوسط خاندانوں کی لڑکیوں کی زندگیاں پہلے ہی جہیز کے بوجھ تلے سسک رہی ہیں اور ’حددرجہ خوبصورتی‘ کا یہ چابک جولوگ لیے پھررہے ہیں انہیں ادھ مرا کرسکتا ہے‘وہ نفسیاتی مریض بن سکتی ہیں‘وہ خودکشی کرسکتی ہیں‘وہ حدود کو ٹھکراسکتی ہیں۔اگر خدانخواستہ وہ خوکومسترد کیے جانے کا غم اوراپنے ماں باپ کی بے بسی کو برداشت نہ کرسکیں توتباہی ان کا مقدر بن سکتی ہے‘پھر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ان کی اور ان کے ماں باپ کی خوشیوں اورپر سکون زندگی کاقاتل کسی ٹہرایاجائے گا، ان کی بربادی کس کی گردن پر آئے گی؟

قرآن وحدیث‘انسانوں کی سماجی زندگی کی ہر ضرورت کااحاطہ کرتے ہیں‘زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں رکھاگیا‘خالق اپنی مخلوق کی تمام تر حاجتوں سے خوب واقف ہے۔نکاح دراصل ایک خاندان کی بنیاد ہے‘ بہ نظرغائر دیکھاجائے تو یہ ایک معاشرے کی بنیاد ہے‘ یہ ایک انتہائی حساس اوراہم معاملہ ہے۔یہی سبب ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث میں اس کے متعلق واضح رہنمائی ملتی ہے‘جہاں حضوراکرم ﷺ نے لڑکی کی دینداری اور اخلاق کو ترجیح دینے کی تلقین کی ہے‘ وہیں قرآن حکیم نے بھی نیک بیویوں کی صفات بیان کردی ہیں۔

دلہن کی تلاش کے لیے ”خوبصورتی کا مخصوص پیمانہ“ لے کر نکلنے والوں اوراخلاق وکردار کو اہمیت نہ دینے والوں کو سنجیدگی کے ساتھ غورکرنا چاہیے کہ وہ لڑکیاں جومحض خوبصورت ہوں گی اورسمجھ بوجھ‘عقل و فہم سے عاری اوران صفات کی حامل نہیں ہوں گی جو دراصل ایک گھر کی تعمیراورایک خاندان کی تشکیل کے لیے درکارہوتی ہیں توپھر ان کا گھر کیا ایک ریت کی دیوار ثابت نہیں ہوگا؟  کیا خاندان محض حسن وجمال کے سہارے ٹک پائے گا؟یا اسے مستحکم واٹوٹ رکھنے کے لیے اعلیٰ اخلاق‘ صبروتحمل‘ عفوودرگزرجیسی خوبیوں کی ضرورت ہوگی؟

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے