ایڈیٹر گواہ اردو وایکلی‘حیدرآباد
– فون:9395381226
تلنگانہ میں بھی آخرکار نائٹ کرفیو لاگو ہوگیا۔ وزیراعلیٰ کے سی آر بھی کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔
راہول گاندھی نے بھی ایک طرح سے یگانگت کا اظہار کیا کہ وہ خود بھی کورونا پازیٹیو ہیں۔
مغربی بنگال میں انتخابی ریالیوں کی منسوخی کا پس منظر سمجھ میں آگیاممتا نے بھی اپنی ریالیاں منسوخ کی ہیں دیکھنا ہے کہ ان کے پازیٹیو ہونے کی خبر کب ملتی ہے۔
ماسک لگائے بغیر انتخابی ریالیوں اور جلسوں سے خطاب کرنے والے امیت شاہ غالباً پہلے ہی ان مراحل سے فارغ ہوچکے ہیں۔اس لئے فی الحال انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ان سے بڑی قیادت ویکسن کی دو خوراک لے چکی ہے۔
مگر پوری طرح سے بے فکر ہوجائیں ایسا بھی نہیں‘ کیوں کہ بعض کمپنیوں کے ویکسن بالخصوص جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کے بارے میں یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ اسے لینے کے بعد بعض افراد کو انجماد خون Blood clots کی شکایت ہوئی۔
اگرچہ کہ جانسن اینڈ جانسن اور Astrazeneca کی ویکسن کے استعمال کرنے والے بعض متاثرین کے دماغ میں بلڈ کلوٹس پائے گئے اگرچہ کہ یہ تعداد 36 ملین مریضوں میں صرف 169 کی ہے پھر بھی اس پر تشویش واجبی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی ہے کہا ہے کہ کوویڈ 19 متاثرین کے ویکسین لینے کے بعد انفکشن کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔ Astrazeneca کی ویکسن سے خون کے جرثومے گھٹنے کی شکایت ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویکسین سیفٹی سے متعلق گلوبل اڈوائزری کمیٹی نے حال ہی میں ایک جائزہ لیا جس کے بعد بتایا گیا کہ کووڈ19 ویکسین Astrazeneca کے علاوہ Vaxzevria اور Covishield کے استعمال کے بعد ایک نئے انفکشن Thrombosis with Thrombocytopenia کا پتہ چلا ہے۔ جسے TTS کہتے ہیں جو پلیٹ لیٹس کی کمی کا سبب اور خون کے جمود کا باعث بن رہے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام ویکسینس کو ریسرچ کے دائرے میں شامل کیا جائے۔
روزنامہ ہندو (18اپریل 2021ء) میں رمیاکانن کے ایک تحقیقی مضمون میں بتایا گیا کہ TTS کے زیادہ اثرات ہندوستان میں نہیں پائے گئے۔البتہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ قلب اور دماغ پر حملوں کے نتیجہ میں ہاسپٹلس میں ہونے والی اموات کی ایک وجہ یہی بھی ہوسکتی ہے۔
ہندوستان میں جہاں Covishield زیادہ استعمال ہورہی ہے۔ 79افراد کی اموات کے پس پردہ محرکات کا ایک جائزہ لیا گیا تو ان میں سے 50 فیصد کی موت ویکسن لینے کے بعد ہارٹ اٹیک یا برین اسٹروک سے ہوئی ہے۔
شہرہ آفاق ویرولوجسٹ اور ویکسنولوجسٹ ڈاکٹر گگن دیپ کانگ کے مطابق جو Rotavirus پر تحقیق کررہے ہیں‘ کوئی بھی ویکسین 100 فیصد محفوظ نہیں ہے۔ چنانچہ mRNA-1273‘ 92 فیصد محفوظ ہیں۔
اس کے اثرات پہلا انجکشن لینے کے چوتھے دن کے بعد مرتب ہوتے ہیں۔ Pfizer کی BNT162b2 سے متعلق نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن نے دعویٰ کیا ہے کہ 94.8 فیصد اس کے اچھے اثرات ہوتے ہیں‘ اور 14 دن بعد ہی اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ Convidecia کے اثرات 28 دن کے بعد ہوتے ہیں اور 90.07 فیصد یہ کارگر ہے۔
روس کی Sputnik-v کی پہلی خوراک کے 21 دن بعد اثرات مرتب ہوتے ہیں اور 91.6 فیصد مثبت اثرات دیتے ہیں۔ جانسن اینڈ جانسن کی Janssen کے اثرات بھی 28 دن بعد ہوتے ہیں اور یہ 85.4 فیصد موثر ہے۔ Astrazeneca کی Covishield کے اثرات صرف 63.09 فیصد ہے اور8تا12 ہفتوں کے وقفے سے یہ دوبارہ لی جاسکتی ہے۔
NVX-CoV2373 کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 96.3 فیصد اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ انگلینڈ میں جب پہلی بار کورونا کی دوسری لہر شروع ہوئی تو اس کے استعمال سے 86.3 فیصد فائدہ ہوا تھا۔ہندوستان کی بھارت بائیوٹیک کی Covaxin کااثر 81 فیصد ہے۔اور 28دن کے بعد اس کا اثر شروع ہوتا ہے۔
حکومت ہند نے 18سال سے زائد عمر کے ہر شہری کے لئے کووڈ ویکسن کی ہدایت دی ہے۔ یکم مئی سے اس کا اطلاق ہوگا مگر یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ویکسین کی قلت ہے‘ اور یہ کہا جارہا ہے کہ جون تک ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان فرق کم ہوگا۔
اس وقت کورونا چوتھے مرحلے میں ہے۔ انڈین ایکسپریس (19/اپریل2021 ء) میں انوجین روہتگی کے ایک مضمون کے مطابق دنیا یہ نہیں جانتی کہ آخر ٹیکہ لینے کے بعد لوگ دوبارہ کیوں متاثر ہورہے ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارے جسم میں اینٹی باڈیز کا اثر کب تک رہتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آخر کووڈ کا جرثومہ کونسا ہوگا؟ اس پر کیسے قابو پایا جاسکتاہے۔
اس وقت ہندوستان میں جس شدت کے ساتھ اس کی لہر چل رہی ہے اس سے ا یک خوف کا ماحول طاری ہے۔ ہاسپٹلس میں نہ تو جگہ ہے نہ تو آکسیجن اور نہ ہی بیڈس۔
ملک میں کورونا کی دوسری لہر ہے اور ماہرین کے مطابق دہلی، ممبئی، پونے، چھتیس گڑھ، کیرالا، مدھیہ پردیش کے تیسرے اور چوتھے مرحلے میں ہے۔انوجین روہتگی نے کوروناکے چار مراحل کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا مرحلہ وہ جہاں فرد متاثر ہوتاہے اور مقامی طور پر وائرس کاپھیلاؤ نہیں ہوتا۔ جب یہ مقامی افراد میں پھیلنے لگتا ہے تو یہ دوسرا مرحلہ کہلاتا ہے۔
جب محکمہ صحت کے ماہرین انفکشن پھیلنے کی وجوہات کے پتہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں تو اسے تیسرا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ جب یہ وباقابو سے باہر ہوجائے اور پورے ملک میں پھیل جائے تو اسے چوتھا مرحلہ کہتے ہیں۔
ہندوستان میں برازیل کے بعد سب سے زیادہ کووڈ متاثرین ہیں۔جس کی ایک وجہ عوام کی لاپرواہی، بے احتیاطی، انتخابی جلسے، ریالیاں، کمبھ میلہ وغیرہ وغیرہ ہے۔
ایمس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گولیریا نے خبردار کیا ہے کہ ہندوستان تیزی سے تیسرے مرحلہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رکہا تو چوتھا مرحلہ دور نہیں جس کے لئے ہم تیار نہیں ہیں۔ ہیلتھ سیکٹر میں ہم بہت پیچھے ہیں۔اگر ملک میں روزانہ ایک لاکھ کیسس کی رپورٹ ملتی ہے تو تشویشناک حد تک متاثرین کے علاج کے لئے ہر روز 5 ہزار تا 10 ہزار بیڈس کی ضرورت ہے۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں 10 لاکھ 90 ہزار ہاسپٹلس بیڈس، 95 ہزار ICU بیڈس اور 48 ہزار وینٹی لیٹرس ہیں۔
جہاں تک کووڈ ویکسین کا تعلق ہے‘ ہم نے عالمی سطح پر اپنا امیج بلند کرنے کیلئے فراخ دلی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو ویکسین ایکسپورٹ کی ہے مگر خود ہمارے ملک میں اس کی قلت پائی جاتی ہے۔ بعض ریاستوں میں جہاں بی جے پی حکومت نہیں ہے ویکسین کی فراہمی میں جانبداری کی شکایت ہے۔
آکسیجن سلینڈرس کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مریض دم توڑ رہے ہیں۔ پرائیویٹ اور کارپوریٹ ہاسپٹلس کی چاندی ہے۔ لاکھوں روپئے وصول کرکے مردہ جسم واپس کئے جارہے ہیں۔جس پر حکومت کی گرفت کمزور ہے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کو مالیہ فراہم کرنے والوں میں کارپوریٹ ہاسپٹلس کے مالکین بھی شامل ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سواسو کروڑ آبادی والے ملک میں جہاں اکثریت سطح غربت سے نیچے رہتی ہے‘ ہیلتھ سیکٹر پر کم توجہ دی گئی ہے۔ یوں تو 2021-22 کے مرکزی بجٹ میں ہیلتھ سیکٹر کے لئے مختص کردہ بجٹ میں 137 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی 2.23 لاکھ کروڑ روپئے ہیلتھ سیکٹر کے لئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کا استعمال کیوں کر ہوگا۔
ہندوستان اپنی GDP کا 1.3 فیصد ہیلتھ سیکٹر پر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے ممالکGDP کا 3.6 فیصد سے 7.6 فیصد ہیلتھ سیکٹر کے لئے مختص کرتے ہیں۔
پردھان منتری آتما نربھر سوستھ بھارت یوجنا یعنی صحت مند خود کفیل ہندوستان اسکیم کے تحت کووڈ ویکسین بھی ہم خود تیار کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ویکسین بروقت متاثرین تک پہنچ سکے۔
کورونا وباء کی شکل میں یقینا قہر الٰہی ہے۔لوگ مررہے ہیں‘ کورونا نہ بھی ہوتا تب بھی مرتے۔ایک منظم طریقہ سے خوف و دہشت کا ماحول تیار کیا گیا ہے۔جو ویکسینس اور ہاسپٹلس کی مارکیٹنگ کے لئے سازگار ہے۔
ایک دور تھا کسی کو چھینک آتی تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے‘ آج وہ خود بھی اپنے آپ سے خوفزدہ اور دوسرے بھی اس سے خائف نظر آتے ہیں۔ کھانسنا تو کبھی ہمارے کمیونکیشن کا حصہ ہوا کرتاتھا۔ آج کھانسنے والے میں ملک الموت کو تلاش کیا جارہا ہے۔
یقینا احتیاط علاج سے بہتر ہے‘ حفظان صحت کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آپ نفسیاتی خوف کے خول سے باہر نکل جائیں۔
متاثرین کو علاج ویکسین کی بھی ضرورت ہے اور انہیں دلاسہ دینے والوں کی ، ان کا حوصلہ بڑھانے والوں کی اس سے زیادہ ضرورت ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اس وباء نے رشتے ناطے خلوص، مروت سبھی کو ختم کردیا ہے۔ہر فرد کو صرف اپنے آپ سے محبت ہے، صرف اپنی زندگی کی اہمیت ہے۔