اذان سے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دوسروں کے عقائد کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، کرناٹک ہائی کورٹ میں اذان پر پابندی کے خلاف دائر درخواست خارج

بین ریاستی خبریں قومی خبریں

اذان سے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دوسروں کے عقائد کی خلاف ورزی نہیں ہوتی
کرناٹک ہائی کورٹ میں اذان پر پابندی کے خلاف دائر درخواست خارج

بنگلورو:22۔اگست(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)

آج کرناٹک ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے مساجد سے اذان پر پابندی عائدکرنے کےمطالبہ پرمشتمل ایک درخواست کوخارج کرتے ہوئے تاریخی فیصلہ صادر کیا کہ”اذان سے آئین کی آرٹیکل 25 اور 26 کےتحت دوسروں کےعقائد کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔اور کہا کہ ان آرٹیکل کے ذریعہ "مذہبی رواداری” کے اصول کومجسم کیا گیا ہے جو ہندوستانی تہذیب کی ایک خصوصیت ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے قائم مقام معزز چیف جسٹس آلوک ارادھے اورجسٹس ایس وشواجیت شیٹی کی ڈویژن بنچ نے آج پیر کو ایک مفاد عامہ کی عرضی کو نمٹا دیا۔جس میں الزام لگایاگیا تھا کہ اذان کے مندرجات سے معاشرے کو تکلیف پہنچتی ہے۔معزز ججس نے کہا کہ اس استدلال کو کہ اذان کے مندرجات سے درخواست گزار اور دوسرے عقیدے کے لوگوں کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست گزارچندرشیکھر آر کی جانب سےپیش ہونے والے وکیل منجوناتھ ایس ہالاور نےعدالت کوبتایا کہ اگرچہ اذان مسلمانوں کاایک ضروری مذہبی عمل ہے۔لیکن اذان میں استعمال ہونے والے”اللہ اکبر” کے الفاظ(جس کا ترجمہ اللہ سب سے بڑا ہے) دوسروں کےمذہبی عقائدکو متاثر کرتے ہیں۔انہوں نے حکام سے ریاست کی مساجد کو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کے مواد کو استعمال کرنے سے روکنے کی عدالت سے ہدایت طلب کی تھی۔

وکیل کی جانب سے پیش کی جانے والی درخواست میں اذان کےدوسرے الفاظ بھی شامل تھے،تاہم معزز بنچ نے وکیل کواسے پڑھنے سےروک دیا۔اور انہوں نے زبانی ریمارکس کیے کہ اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں،آپ نے یہ الفاظ سن کرکہا ہے کہ آپ کا حق پامال ہوا ہے تو آپ اسے کیوں پڑھیں؟

کرناٹک ہائی کورٹ کے قائم مقام معزز چیف جسٹس آلوک ارادے اور جسٹس ایس وشواجیت شیٹی کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ آئین ہند کا آرٹیکل 25 (1) تمام افراد کو آزادی سے اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے ۔تاہم یہ حق مطلق حق نہیں ہے بلکہ امن عامہ کی بنیاد پر پابندیوں سے مشروط ہے۔امن عامہ،اخلاقیات اور صحت کی بنیاد پر نیز ہندوستان کے آئین کے حصہ 3 میں دیگر دفعات کے تابع ہے۔

دو رکنی معزز بنچ نے کہاکہ بلاشبہ درخواست گزار کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔اور اذان مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی دعوت ہے۔اور یہ معاملہ ہے کہ خود درخواست گزار نے اپنی رٹ پٹیشن کے پیرا 6 (b) میں استدعا کی ہے کہ اذان اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک لازمی مذہبی عمل ہے۔

معزز ججس نے کہا کہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ خود درخواست گزار کا معاملہ نہیں ہے کہ آرٹیکل 25 کے تحت اس کے بنیادی حق کی ضمانت دی گئی ہے جو لاؤڈ سپیکر یا پبلک اڈریس سسٹم کے ذریعہ اذان دے کرکسی بھی طریقے سےخلاف ورزی کررہا ہےیا اس کےمندرجات سے درخواست گزار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے یاوہ افراد جو دوسرے عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ساتھ ہی معزز ججس نے حکام کوہدایت دی کہ وہ اس بات کویقینی بنائیں کہ لاؤڈ اسپیکر،پبلک اڈریس سسٹم اور آواز پیداکرنے والے آلات اور دیگر موسیقی کے آلات کو رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک صوتی لہر کی شدت کے حساب سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس سلسلہ میں عدالت نے 17 جون کو ہائی کورٹ کی کوآرڈینیٹ بنچ کی جانب سے ئیے گئے حکم کا حوالہ دیا۔جس میں متعلقہ حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ لاؤڈ اسپیکر اور پبلک اڈریس سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مہم چلائیں۔

 

"نوٹ: اس خبر کی تیاری میں "لائیو لاء Live Law "سے بشکریہ مدد لی گئی ہے”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے