شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے زیر اہتمام افتخار امام صدیقی اور پروفیسرمحمد ظفرالدین کا تعزیتی اجلاس

Uncategorized

شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے زیر اہتمام
جناب افتخار امام صدیقی اور پروفیسرمحمدظفرالدین کا تعزیتی اجلاس

اظہر جمال
ایم فل اسکالر، یونیورسٹی آف حیدرآباد

ممتاز شاعر جناب افتخار امام صدیقی،مدیر ماہنامہ ’’شاعر‘‘ ممبئی اور پروفیسر محمد ظفرالدین، مدیر ادب و ثقافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سانحہ ارتحال پر شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے ایک تعزیتی اجلاس بتاریخ 6 اپریل بروزمنگل گوگل میٹ پر منعقد کیا گیا جس میں مختلف جامعات و کلیات کے اساتذہ‘ طلبا و ریسرچ اسکالرز کے علاوہ اردو اداروں سے وابستہ کئی احباب نے شرکت کی اور اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کیا۔

تعزیتی اجلاس کا آغاز شعبۂ اردو کے طالب علم مولانا حافظ ناصر خان نعمت مصباحی کی قرات کلام پاک سے کیا گیا۔ابتداء میں پروفیسرسیدفضل اللہ مکرم صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے جناب افتخار امام صدیقی اور پروفیسر ظفر الدین کا بھرپور تعارف کروایا اور ان کے سانحہ ارتحال پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر مصطفی کمال سابق صدر شعبہ اردو انوارلعلوم کالج و مدیر شگوفہ نے پروفیسر ظفرالدین سے وابستہ دیرینہ تعلقات کے حوالے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) کے ابتدائی دنوں میں ان کی خدمات کا جائزہ لیا اور ان کے تراجم کے حوالے سے ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ مانو کے ابتدائی دنوں میں وہ کس طرح پہلے وائس چانسلر پروفیسرشمیم جیراج پوری کا ساتھ دیا اور مانو کو اردو عوام میں متعارف کروایا انہوں نے آخر میں ظفر الدین کے افراد خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا اور دعاے مغفرت کی۔

پروفیسرفاطمہ پروین سابق شعبۂ اردو اور سابق وائس پرنسپل آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ نے کہا کہ پروفیسرظفرالدین کے سانحہ کے بارے میں سن کر یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔لیکن وقت جو آتاہے وہ ٹلتا نہیں ہے۔
موت سے بھی مریں گے نہیں زورؔ ہم
زندگی میں جو کچھ کام کرجائیں گے
موت برحق ہے لیکن اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتاہے تو اس کی موت موت نہیں بلکہ زندگی بن جاتی ہے،ظفرالدین صاحب ہمیشہ بڑی نرمی سے گفتگو کرتے تھے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو جس طریقے سے پروان چڑھایا وہ ناقابل فراموش ہیں بہر حال پروفیسر ظفرالدین ایک ایسی شخصیت تھی جن کو اردودنیا فراموش نہیں کرسکتی۔

افتخار امام صدیقی صاحب پچاس سالہ خدمات کے ساتھ "ماہنامہ شاعر "کے مختلف اور متعدد خاص نمبروں کے ساتھ اور اپنی علمی لگن کے ساتھ سیماب اکبرآبادی کی خدمات کو آگے بڑھاتے ہوئے "شاعر” کو جس معراج پر لے گئے تھے وہ بھی اب ختم ہوچکا ہے اردو زبان و ادب کے ترقی کے لیے ان دونوں حضرات کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم نے بروقت تعزیتی اجلاس کا اہتمام کرکے بہت اہم کام انجام دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان دونوں مرحومین کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

پروفیسر خالد مبشر الظفر‘ صدر شعبہ ترجمہ مانو نے کہا کہ پروفیسر ظفر الدین ایک بہترین شخصیت کے مالک تھے وہ ایک بہترین منتظم تھے۔ ترجمہ کے حوالے سے پروفیسر محمد ظفرالدین صاحب کا نام ہمیشہ کے لیے یاد رکھاجاے گا اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک مکمل دستاویزی شکل میں پروفیسر محمد ظفرالدین صاحب کی خدمات کو بطور خاص ترجمے کے حوالے سے اور اردو ادب کے حوالے سے ایک جگہ اکٹھا کریں مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم شعبۂ ترجمہ کی جانب سے بہت جلد پروفیسر ظفر الدین پر ایک سمینار کا انعقاد کریں گے۔

پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدرشعبۂ فارسی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مانو کے ابتدائی دنوں میں ظفر بھائی گاؤں گاؤں جا کر یونیورسٹی کے مقاصد بیان کرتے تھے اور اس کی ترویج و ترقی سے متعلق عوام کو آگاہ کرتے تھے‘ ان کی انتظامی صلاحیت کے تعلق سے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یونیورسٹی کی کوئی بھی ایسی پوسٹ نہیں تھی جس پہ نہ رہے ہوں وہ پراکٹر بھی تھے ، ڈین بھی تھے ، ہیڈ بھی تھے، وہ لائبریری کے ڈایئریکٹر بھی تھے ، اور ادب و ثقافت کے ایڈیٹر بھی تھے ۔اللہ تعالیٰ ظفر بھائی کی مغفرت فرمائے۔

ڈاکٹر اسلم پرویز (مانو) نے کہا کہ ظفرالدین صاحب نہایت ایک سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کے ہاں بردباری تھی نرم لہجے کے مالک تھے کسی کا دل نہ ٹوٹے اس بات کا وہ ہمیشہ خیال رکھتے تھے چھوٹا ہو یا بڑا سب کو عزت و احترام دیتے تھے یعنی کے خلوص ان کی شخصیت کا حصہ تھا اور خاص طور سے ان کے اندر یہ خوبی کی بات تھی وہ اختلافی مسائل سے پرہیز کرتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ افتخار امام صدیقی اور ظفر صاحب کا وصال اردو دنیا کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔

ڈاکٹر محمد زاہد الحق استاد شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے بالآخر اس خبر پر یقین کرنا پڑا اب وہ ہمارے بیچ جسمانی شکل میں نہیں رہے بلکہ ان کے جو کارہائے نمایاں یانیک اعمال ہیں وہ روح کی شکل میں ہمارے درمیان ہر دن ہمیشہ موجود رہیں گے آنے والے آئیں گے جانے والے جائیں گے نام خدا کا باقی ہے اور نیک عمل رہ جائے گا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے ان کو غریق رحمت کرے۔

پروفیسر حبیب نثار استاد سابق صدر شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ ظفر صاحب کی ایک عادت میں نے نوٹ کی کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے فیڈ بیک لیا کرتے تھے۔ اقبال کا ایک مصرعہ ہے
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
ظفر صاحب اس مصرع کی تعبیر تھے، بہت سنجیدہ نرم گفتگو کرنے والے تھے۔انہوں نے کہا کہ ادب و ثقافت کا جو اجرا ہے جس طرح سے اس کی پذیرائی کی اورآج جس سطح پر وہ ہے ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے وہ بنیادی طور پر صحافی ہی تھے۔مولانا آزاد یونیورسٹی میں وہ سب سے سینئر تھے اور کوئی شعبہ مولانا آزاد یونیورسٹی کا ایسا نہیں ہوگا جہاں انھوں نے اپنی خدمات انجام نہ دی ہوں۔

وہ جو بھی کام کرتے تھے تو بہت سنجیدگی سے کیا کرتے تھے وہ جب کسی سے ملتے تو بہت خلوص سے ملتے تھے کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔افتخار امام صدیقی نے برسوں شاعر کے حوالے سے اردو کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔میں دونوں احباب کے لیے اظہار تعزیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت کرے اور اللہ تعالیٰ ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا کرے۔

ڈاکٹررقیہ نبی نے انتہائی گلوگیر لہجے میں کہا کہ جب میں پی ایچ ڈی مقالہ داخل کرنا چاہ رہی تھی اور یونیوسٹی کیمپس کو چھٹیاں مل گئی تھیں‘ مجھے رہنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی ایسے میں ظفر صاحب اس وقت میرے مسیحا بن کر آئے انہوں نے مجھے اپنے گھر میں ایک مہینے کے لیے رکھا۔ چونکہ میں نے کبھی پدرانہ شفقت جو والد کی ہوتی ہے کبھی دیکھی نہیں ہے بچپن میں والد صاحب چھوڑ کر چلے گئے تھے وہاں میں ایک مہینہ رہ کے جس طرح وہ اپنے بچوں کو ٹریٹ کرتے تھے اسی طرح ان کا برتاو میرے ساتھ بھی رہااور مجھے بھی ملا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی دعاء کرتی ہوں کہ میری جتنی نیکیاں ہیں میرے والدین کے حق میں ان کے عوض مظفر صاحب کو مغفرت فرمائے۔

آخر میں پروفیسر محمد ظفرالدین صاحب کے بھائی پروفیسر شہزاد انجم صاحب ، صدرشعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا بیان کروں ایک پہاڑ غموں کا ٹوٹ پڑا ہے۔اس خبر کو ہم لوگ مدتوں تک سننا نہیں چاہتے تھے بہر حال میں حیدرآباد کے ان تینوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا شکر گزار ہوں اور آج جن احباب نے تعزیت کی ہے ان کا ممنون ہوں انھوں نے جس محبت کے ساتھ بھائی جان کو یاد کیا۔

میں ہمیشہ ان کو بھائی جان ہی کہا کرتاتھا اور یہی میرے ایک ہی بھائی جان ہیں کیوں کہ ان کے بعد میں ہی ہوں مجھ سے چھوٹے دو اور بھائی ہیں ،بچپن ساتھ گزرا میری پوری تعلیم و تربیت میں اور ترقی میں ان کا بڑا رول رہاہے۔حیدرآباد کو انہوں نے وطن ثانی سمجھا‘ مانا اور بنالیا اور حیدرآباد کے لوگوں نے انھیں بے پناہ پیار دیا۔

حیدرآباد سے انھیں عشق تھا میں یہ بتاتا چلوں کہ وطن ہم لوگوں کا گیا بہارہے ہمارے والد صاحب کاتب تھے ان سے ہم لوگوں نے کتابت سیکھی اور بھائی جان سب سے پہلے’’ قومی آواز‘‘ میں بحیثیت کاتب پہ انھوں نے ملازمت پائی وہاں چراغی صاحب نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان سے ترجمے کا کام لیا اور وہ وہاں ٹرانسلیٹر بن گئے پھر اس کے کچھ دنوں کے بعد انہوں قومی آواز میں مختلف موضوعات پر کام کیا ۔ مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں اور جب اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہ حیدرآباد چلے آئے ۔

بھائی جان کی پیدائش 11؍اکتوبر 1964ء کوان کی ننیہال ہزاری باغ اس وقت بہار موجودہ جھارکھنڈ میں ہوئی۔ان کی ابتدائی تعلیم حاجی ہاشمی ہائی اسکول میں ہوئی اس کے بعد گیا کے مشہور مرزاغالب کالج سے آئی ایس سی کرنے کے بعد وہ دہلی آگئے قومی آواز اور نئی دنیا میں بھی انھوں نے ملازمت کی اور پھر ذاکر حسین کالج میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے ایم ۔فل کیا پروفیسر قمر رئیس صاحب کی نگرانی میں نیاز حیدر پر مقالہ لکھا جو مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے اردو افسانے پر پروفیسر قمررئیس صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا پھر حیدرآباد میں آکر بقیہ زندگی گزاری ۔ ان کی جن خوبیوں کا اظہار آپ لوگوں نے کیا ہے میں مانتاہوں وہ ساری خوبیاں ان میں تھیں لیکن اس سے کہیں زیادہ میں نے جو محسوس کیا وہ بڑے کنبہ پرور بھائیوں اور بہنوں سے خاندان کے افراد سے محبت کرنے والے صاف دل ‘صاف گو اور صاف معاملات کے حامل رہے۔

ان کے انتقال کی خبر پر پورا خاندان دہل کر رہ گیا کسی کو اس خبر پر یقین کرنے کوجی ہی نہیں چاہا۔میں ان کی مغفرت کی دعا کرتاہوں اور ساتھ ہی اپنی بھابی صاحبہ اور ان کے بچوں یعنی کہ اپنے بھتیجے بھتیجی کے لیے دعا ء گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو صبر دے اور ان لوگوں کے لیے بہتر اور اچھے راستے نکالے اس وقت زیادہ کچھ کہنا میرے لیے مشکل ہے مجھے بار بار حالی کی وہ نظم یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے لیے لکھی تھی۔

میں سمجھتا ہوں وہ صرف میرے بڑے بھائی نہیں تھے بلکہ میرے سچے غمگسار اور ہمدرد تھے اور ان کی جو معاملہ فہمی تھی ان کی جو کام کے تئیں ایمانداری تھی جو سنجیدگی تھی وہ میں دیکھا کرتاتھا۔ان کا جانا اردو دنیا کا بڑا نقصان ہے اور ہمارے خاندان کا تو ایسا خسارہ ہے جس کا تصور کرکے بھی میں دہل جاتاہوں۔ ایک شدید صدمے سے پورا خاندان دوچار ہے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے موقع ملا تو چند سطریں چند صفحات میں لکھوں گا اور آپ لوگوں کی خدمت میں ضرور بھیجوں گا۔میں پروفیسر فضل اللہ مکرم کا ممنون ہوں کہ انہوں نے یہ تعزیتی اجلاس منعقد کیا۔اللہ تعالیٰ میرے بھائی جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جنت الفردوس میں انھیں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین ثم آمین۔

پروفیسر فضل اللہ مکرم صدرشعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اظہارتعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ظفرالدین صاحب بڑی نرم گفتگو کرتے تھے میں ان سے بیس سال سے واقف ہوں میں نے کبھی ان کو غصہ اور چیختے چلاتے نہیں دیکھا اتنی نرم گفتگو آپ کیا کرتے تھے۔وہ ایک معاملہ فہم انسان تھے ہر کسی کی مدد کرنے ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے،ہر ایک کی خوشی اور غم میں شریک ہواکرتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج صبح قبرستان میں کہا گیا کہ کوئی دیدار کرنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں تو جسم میں جھُر جھُری سی محسوس ہوئی کہ کل تک جس کے ساتھ ہم بیٹھا کرتے تھے اسٹیج پر رہتے تھے جس سے بات چیت ہوتی تھی آج انھیں آخری دیدار کے لیے بلایا جارہاہے ایک ایسا لمحہ تھا جو ناقابل بیاں تھا لیکن ہم کو ان مرحلوں سے گزرنا ہے۔ آج ہر کوئی ظفر صاحب کی یاد میں ہیں ہر کوئی ان سے وابستگی کا اظہار کررہاہے یہ ان کی شخصیت اور بہترین کردار کی وجہ سے یہ چیزمہیا ہوئی ہے۔

اسی طرح افتخار امام صدیقی کا دو دن قبل انتقال کرجانا اردو دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔وہ کئی برسوں سے علیل تھے مگر شاعر کی ادارت کی ذمہ داری بخوبی نبھایا کرتے تھے افسوس ان کی ادارت میں ہم شاعر کا صد سالہ جشن نہیں منا سکتے۔ آج اس تعزیتی اجلاس کے حوالے سے میں ان دونوں کے افراد خاندان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم تمام لوگ آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔اللہ ان دونوں کی مغفرت فرماے۔آخر میں ڈاکٹر نشاط احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو کے دعائیہ کلمات پر یہ تعزیتی اجلاس اختتام کو پہنچا۔

2 thoughts on “شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے زیر اہتمام افتخار امام صدیقی اور پروفیسرمحمد ظفرالدین کا تعزیتی اجلاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے