اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں

Uncategorized

 

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
۔۔
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
۔۔
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
۔۔
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
۔۔
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
۔۔
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
۔۔
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
۔۔
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
ؔکیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

احمد فراز اپنی مشہور غزل مشاعرہ میں پڑھتے ہوئے 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے