کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہوسکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اُچھالو یارو
صحافی کے انداز میں 12 سالہ سرفراز خان نے
سرکاری اسکول کی حالت زار پر بنائی ویڈیو رپورٹ
وائرل ہونے کے بعدعہدیداروں کا دؤرہ،ضلع کلکٹر کو رپورٹ
حیدرآباد : 07۔اگست
(سحرنیوزڈاٹ کام/سوشل میڈیا ڈیسک)
گزشتہ چند سال سے میڈیا کی شبیہ شدید متاثر ہوئی ہے۔اس کی پہلی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ صحافتی اقدار اور ذمہ داریوں سے ناواقف لوگوں کی بڑی فوج میڈیا میں پچھلے دروازے سے داخل ہوگئی ہے!!ہر تیسراشخص اب خود کو”سینئر جرنلسٹ”لکھنے لگا ہے۔اپنی گاڑیوں پر جلی حرفوں میں پریس PRESS لکھوانا ہی صحافت کا اہم فریضہ مان لیا گیا ہے!!۔
لازمی نہیں کہ صحافی کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری ہو بس الفاظ کو برتنے،لکھنے اور خبروں کو پیش کرنے کا درست انداز کافی ہوتا ہے۔ان دنوں ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں الیکٹرانگ میڈیا کے کسی نہ کسی چینل یا پھر یوٹیوب چینل کا لوگو ضرور نظرآتا ہے۔اوپر سے سوشل میڈیا نے بھی میڈیا کی اہمیت کو کم کرکے رکھ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اب ایسے کئی سینئر صحافی بھی ہیں جنہوں نے کئی سال تک بڑے میڈیا اداروں میں کام بھی کیا ہے اور اپنا خون پسینہ بہاکر ایک مقام حاصل کیا ہے۔ایسے بیباک،بے خوف اور بے لوث صحافیوں کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر کروڑہا لوگ فالو کرتے ہیں اور ان کی غیر جانبداری کو سراہتے ہیں، ان کے ویڈیوز اور پیشکش کے انداز کو پسند بھی کرتے ہیں۔
جھارکھنڈ کے ایک 12 سالہ بچے نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے میڈیا کو کرنا چاہئے تھا۔عوامی مسائل،سرکاری اسکولوں،ہسپتالوں اور سڑکوں کی حالت سے حکومتوں کو واقف کروانا میڈیا کا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ میڈیا عوام اورحکومت کے درمیان ایک پُل کی طرح ہوتا ہے۔اب اس دؤر میں میڈیا کی حالت اوراس کی کارکردگی کے متعلق سوچنا بھی غیر ضروری ہے۔
شاید صحافیوں کےویڈیوز دیکھ کر جھارکھنڈ کےسرفرازخان میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ ایک صحافی کی طرح اپنے مقامی سرکاری اسکول کی ایک ویڈیو بنائی جائے اور مسائل کو حکومت تک پہنچایا جائے اور یہ لڑکا اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔
جھارکھنڈ کے گوڈا ضلع کے مہاگما بلاک کے بھیکھیاچک گاؤں سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ سرفراز خان جو کہ اسی سرکاری اسکول کی چھٹی جماعت کا طالب علم ہے نے” ایک لکڑی لی اور ایک کول ڈرنک کی چھوٹی بوتل کا منہ کاٹ کر اس کو مائیک کی شکل دے دی”۔اور سرکاری اسکول میں گھوم گھوم کر ایک صحافی کی طرح اس اسکول کی حالت زار پرمشتمل ویڈیو بنا دیا۔
https://twitter.com/Hemantg65153835/status/1555453671076671488
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سرفرازخان اسکول میں موجود طلبہ سے پوچھتا ہے کہ وہ کیوں اسکول نہیں آتے تو بچے کہتے ہیں کہ ٹیچرز نہیں آتے اور اسکول کی حالت ایسی ہے۔اس ویڈیو میں سرفرازخان پورا بدحال اسکول،کلاس رومز،بیت الخلا اور اسکول کے احاطہ میں موجود جنگلی پودوں اور غیر موجود بورویل کو دکھاتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ جب بچوں کو اس اسکول میں کوئی سہولت نہیں ہے تو بچے پڑھنے کیوں آئیں گے اور کب اس اسکول کی حالت سدھاری جائے گی۔
اس ویڈیو میں ایک تربیت یافتہ صحافی کی طرح اپنی کلائی کی جانب نظرڈال کر سرفراز خان اس ویڈیو میں کہتا ہے کہ اب دیکھیں 45-12 بجے ہیں ایک ٹیچر بھی اسکول نہیں آئے،ٹیچرز صرف اپنی حاضری ڈالنے آتے ہیں،اسکول کو جانور باندھنے کا اڈہ بنادیا گیا ہے توبچے کیسے اسکول آئیں گے؟
اس ویڈیو میں سرفراز خان کہتے ہیں کہ طالبات کو بیت الخلا کی سہولت حاصل نہیں ہے اور نہ پینے کا پانی میسر ہے اس کے لیے انہیں دورتک جانا پڑتا ہے اس لیے طالبات بھی اسکول نہیں آتیں۔اس ویڈیو میں یہ ننھا رپورٹر سوال کرتا ہے کہ اسکول کی مرمت کب کی جائے گی؟ اور پوچھتا ہے کہ جب حکومت رقم جاری کرتی ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ ویڈیو کے آخر میں ایک پیشہ ور صحافی کی طرح یہ لڑکا ویڈیو گرافر کے نام کے ساتھ کہتا ہے”میں سرفراز خان”۔
دیکھتے دیکھتے سرفراز خان کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔اس کے بعدسرکاری عہدیدار جاگ گئے۔سرفراز خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےالزام عائد کیا کہ جب ان کا ویڈیو وائرل ہوا تو اس کی اس "نیوز رپورٹ” کو دیکھ کر ان کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور ان کی والدہ کو پولیس میں ایف آئی آر درج کروانے کی دھمکی دی۔
https://twitter.com/MaazAkhter800/status/1555088406757011456
دوسری جانب گوڈا ضلع کے مہاگما بلاک کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر پروین چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے یہ ویڈیو دیکھی اور دوسرے ہی دن انہوں نے اور ایس ڈی او نے اس اسکول کا دؤرہ کیا جہاں انہیں بہت ساری بے ضابطگیوں کا پتہ چلا اور اسکول کی حالت دیکھ کر انہیں بھی افسوس ہوا۔
بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر پروین چودھری نے بتایا کہ جب ہم اسکول پہنچے تو دیکھا کہ ویڈیو میں دکھائے گئے مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نےاس کی تفصیلی جانچ کی ہے اورضلع کلکٹر کواس سلسلہ میں ایک رپورٹ روانہ کردی گئی ہے۔ساتھ ہی انہوں نےضلع کلکٹر سے اساتذہ کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
سرفراز خان نے ایک مقامی نیوزچینل کو بتایا کہ وہ چار بھائی ہیں،ان کی والدہ ان کی پرورش کررہی ہیں جبکہ چندسال قبل ان کےوالد کاانتقال ہوگیا ہے۔یاد ہوگاکہ چند سال قبل حیدرآبادمیں برقی شاک لگنے سے جھارکھنڈ کے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی سرفرازخان کا انہی کا ہونہار اور نڈر بیٹا ہے۔ جس نے اپنے صرف ایک ویڈیو کے ذریعہ حکومت اور عہدیداروں کو جگادیا۔
جبکہ ہمارے اطراف میں ایسے کئی ذمہ دار افراد موجود ہیں جو اپنے آس پاس موجود مختلف مسائل کو نمائندگی کے ذریعہ حل کروانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن زیادہ تر افراد انجان بن کر گزر جانے کو ہی بہتر سمجھتے ہیں!!۔