تلنگانہ میں اردو کے فروغ میں ادبی اجلاسوں اورمشاعروں کا اہم کردار
تمام انجمنوں اور اداروں کی مشترکہ کوشش سے اردوزبان کو مزید فروغ حاصل ہوگا
حیدرآباد:19۔جولائی (پریس نوٹ)
ہندوستان میں فروغ اردو زبان و ادب کے تئیں حیدرآباد نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔یہاں کی انجمنیں، ادارے اور شخصیات اردو زبان کی ترقی و ترویج کے ضمن میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہیں۔
اس مقصد کے تحت، کئی شخصیات رات دن انفرادی محنت اور اپنے ذاتی سرمایے سے ادبی اجلاس و مشاعروں کا اہتمام کرواتے ہیں. جبکہ علم و ادب دوست افراد کے رول سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت اور اس کے قائم شدہ اداروں کو ان سرگرمیوں کی پذیرائی کرنی چاہیے بلکہ ایسے اداروں اور انجمنوں کی حوصلہ افزائی گویا حکومتِ وقت کا فرض ہے۔ مقررین نے ان خیالات کا اظہار ماہنامہ ” تاریخ دکن ” کی جانب سے ڈیمریس اے بی سی ہال، وجئے نگر کالونی، حیدرآباد میں ڈاکٹر مختار احمد فردین کی حیدرآباد واپسی پر منعقدہ ادبی و تہنیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس اجلاس میں مقررین نے اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے حال ہی میں منعقدہ پانچ روزہ ورکشاپ پر پُرمغز گفتگو بھی کی۔ بتایا کہ ورکشاپ جس کا مقصد اردو صحافیوں کی تربیت تھا، ایک اچھی کوشش ہے اور ایسی کوششیں مستقبل میں بھی ہوتی رہنی چاہئے۔
مذکورہ ورکشاپ میں صحافت سے جڑی اہم شخصیات کو بھی شامل رکھا جاتا تو مزید اردو داں طبقہ اور صحافی حضرات کا اس سے استفادہ ممکن تھا۔
مشہور صحافی عزیز برنی، راجیش رائنا، معصوم مرادآبادی، سہیل انجم، عامر علی خان(آئی اے ایس)، مبشر خرم ، ڈاکٹر شجاعت علی صوفی، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایس جے افتخار، محمدریاض، شجیع اللہ فراست، غضنفر علی اور دیگر اہم صحافیوں کو بھی اس ورکشاپ میں خطاب کے لیے مدعو کیا جاسکتا تھا۔
مقررین نے اپنی تقاریر میں کہا کہ اردو زبان کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب نئی پود یعنی نوجوان نسل اردو زبان سے جڑے۔اس کے لیے ہمیں ریسڈینشل اسکول اور حکومت کے دیگر اسکولوں اور کالجوں میں اردو بحیثیت ایک مضمون پڑھانے پر زور دینا چاہئے۔اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکول میں شریک کرواتے وقت والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسکول انتظامیہ کو تعلیمی نصاب میں بطور ایک مضمون اردو شمولیت پر زور دیں۔
ابتداء میں ڈاکٹر سید حبیب امام قادری نے مہمانوں کا استقبال کیا اور ڈاکٹر مختار احمد فردین کی گل و شال پوشی کی گئی۔ موصوف نے ماہنامہ تاریخ دکن کی جانب سے اس تقریب کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا ساتھ ہی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے پذیرائی پر ڈاکٹر سید حبیب امام قادری اورمحسن خان کی ستائش کی۔
ڈاکٹر مختار احمد فردین نے اپنے خطاب میں منتظمین کو اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج سے دلچسپی رکھنے والے سبھی افراد کو کشادہ دلی اور وسیع القلبی کے ساتھ اپنے ہمراہ لے چلنے کا مشورہ دیا. جگر مرادابادی کے مشہور مصرع "میرا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے” کو دہراتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ گھروں اور اداروں میں تو سبھی بستے ہیں جبکہ ہمیں اردو کی مٹھاس و چاشنی لیے لوگوں کے دلوں میں بسنے کی کوشش کرنی چاہئے!!
بعد ازاں ڈاکٹر ایم اے ساجد (صدر ادبی فورم ذیمریس) کی صدارت میں منعقدہ اس ادبی و تہنیتی اجلاس سے محمد آصف علی، ڈاکٹرسید حبیب امام قادری، محسن خان، جہانگیر قیاس، نصراللہ، سید اصغر ، فضل عمر، خواجہ سعید الدین اور دیگر اصحاب نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پرمنعقدہ مشاعرہ سے جہانگیر قیاس، سید اصغر اور فضل عمر نے کلام سنایا۔محسن خان کے شکریہ پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔