کرناٹک کی ایک یونیورسٹی میں طالب علم کو دہشت گرد کہنے والا پروفیسر معطل، ویڈیو سونامی کی طرح وائرل

سوشل میڈیا وائرل قومی خبریں

 کرناٹک کی ایک یونیورسٹی میں
طالب علم کو دہشت گرد کہنے والا پروفیسرمعطل
ویڈیو سونامی کی طرح وائرل، ہر طرف سے شدید تنقید 

بنگلورو: 28۔نومبر (سحرنیوز ڈاٹ کام/ایجنسیز)

گزشتہ دو تین دنوں سے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو سونامی کی طرح وائرل ہوا ہے۔کلاس روم میں لیے گئے اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتاہےکہ ایک طالب علم طلبہ کی موجودگی میں ایک پروفیسر سے کسی بات پر بحث میں مصروف ہے۔اور اپنا احتجاج درج کروارہا ہے۔دراصل یہ وائرل شدہ ویڈیو ایک پروفیسر کی جانب سے ایک مسلم طالب علم کا دہشت گرد سے موازنہ کرنے اور اسے قصاب (ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں زندہ پکڑا گیا اجمل قصاب،جسے بعد میں پھانسی دے دی گئی)کے نام سےپکارےجانے کےخلاف طالب علم کےشدید اعتراض پرمشتمل ہے۔

اس مسئلہ پرمسلم طالب علم نے سخت احتجاج کیا تو پروفیسر نےاسی موقع پرتمام طلبہ کےساتھ معافی مانگ لی تھی ۔تاہم اس ویڈیوکے وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی نے اس پروفیسر کو آج خدمات سےمعطل کردیا ہے۔میڈیا اورسوشل میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ ساحلی کرناٹک کے علاقہ میں موجود منی پال یونیورسٹی میں پیش آیا ہے۔یونیورسٹی کےپبلک ریلیشن آفیسر نے میڈیا سے کہا کہ واقعہ جمعرات یا جمعہ کو رپورٹ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر کومعطل رکھا گیا ہے،کیونکہ اس واقعہ کی یونیورسٹی سطح پر اندرونی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔

اس وائرل شدہ ویڈیو میں انگریزی میں ہونے والی گفتگو میں سنا جاسکتا ہےکہ کلاس روم میں طالب علم نے پوچھا”آپ اس طرح کا ریمارک کیسے کر سکتے ہیں۔؟ اس کے بعد طالب علم نے پروفیسر سے جم کر بحث کی۔تاہم پروفیسر نے وضاحت کی کہ یہ بات مزاح والے انداز میں کہی گئی تھی۔

اس دلیل کو مزید آگے بڑھاتےہوئے طالب علم نے کہا کہ 26/11 (26 نومبر 2008 کو بمبئی کے مختلف اہم مقامات پر پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے دہشت گردانہ حملہ کیا گیاتھا۔جس میں اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے سمیت ان کی ٹیم کے انتہائی قابل عہدیداروں کے بشمول زائد از 250 معصوم افراد نے اپنی جانیں گنوائی تھیں) کا دہشت گردانہ واقعہ مذاق نہیں تھا،اس حوصلہ مند طالب علم نےموجودہ حالات میں ملک کے مسلمانوں کے درد کی بہترین عکاسی اور پروفیسر کی مسلم مخالف ذہنیت کو مزید ذلیل کرتے ہوئےکہا کہ مسلمان ہونا اور اس ملک میں ایسی چیزوں کا سامنا کرنا مذاق نہیں ہے۔

پروفیسر نے بعد میں اس طالب علم سے معافی مانگ لی اور کہا کہ وہ اس کے بیٹے کی طرح ہے۔اس پر بھی اس طالب علم نے اپنا درد ظاہر کرتے ہوئے اس پروفیسر سے سوال کیا کہ” کیا وہ پوری کلاس کے سامنے اپنے بیٹے کو دہشت گرد کہیں گے۔”؟ معذرت کافی نہیں ہوگی جناب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اپنے آپ کو یہاں کیسے پیش کرتے ہیں”آپ کا کام پڑھانا ہے۔

بعدازاں پروفیسر اورطالب علم دونوں نےایک دوسرےسےبات کی اور اختلافات کو دور کرلیاتھا۔ ایک مخصوص طبقہ کے طالب علم پراس طرح کے ریمارک پر سوشل میڈیا پر مختلف صارفین کا شدید ردعمل جاری ہے اورانٹرنیٹ پر اس ویڈیو نے دھوم مچا دی ہے۔

اس ویڈیو کو پروفیسر اشوک سوین جو یونیسکو(اقوام متحدہ کی تعلیمی،سائنسی اور ثقافتی تنظیم)کے چیئرپرسن بھی ہیں نےٹوئٹ کرتےہوئے لکھا ہے کہ” ہندوستان میں ایک کلاس روم میں پروفیسر ایک مسلمان طالب علم کو ‘ دہشت گرد ‘ کہہ رہے ہیں،ہندوستان میں اقلیت ہونے کا یہی حال ہے۔!

بہر حال معاملہ جو بھی ہو انتہائی تشویشناک ماناجاسکتاہے کہ اقتدار اور ووٹوں کےلیے جو زہر برسوں سے بویا گیا تھا آج وہ مذہبی نفرت کا زہریلا ناگ بن گیا ہے۔ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ میں اس طرح کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔اور اندازہ  لگایا جاسکتا ہےکہ اسلاموفوبیا اور مذہبی منافرت کا زہر کتنی اندر تک سرائیت کرچکا ہے؟؟ 

اس سارے معاملہ کے بعد آج ہی "منی پال انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی،منی پال ” کی جانب سے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ” ادارہ نے پہلے ہی اس واقعہ کی انکوائری شروع کردی ہے اور متعلقہ عملے کو انکوائری مکمل ہونے تک کلاسوں سے روک دیا گیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی جان لے کہ انسٹی ٹیوٹ اس قسم کےرویے کو معاف نہیں کرتا اور اس الگ تھلگ واقعہ سے طےشدہ پالیسی کےمطابق نمٹاجائے گا۔
انسٹی ٹیوٹ کو کیمپس میں سب سےبڑے تنوع پرفخر ہے اور وہ ذات،مذہب،علاقہ،جنس وغیرہ سے قطع نظر،سب کےساتھ یکساں سلوک کرنے کی ہماری آئینی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے”۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے