نوئیڈا میں 500 کروڑ مالیتی 950 فلیٹس پرمشتمل غیر قانونی طورپر تعمیرکردہ جڑواں ٹاورس 9 سیکنڈ ز میں دھماکو اشیا کے ذریعہ زمین بوس کردئیے گئے

سوشل میڈیا وائرل قومی خبریں

نوئیڈا میں 500 کروڑ مالیتی 950 فلیٹس پرمشتمل غیر قانونی طور پر تعمیرکردہ
جڑواں ٹاورس 9 سیکنڈ میں دھماکو اشیاء کے ذریعہ زمین بوس کردئیے گئے
3,700 کلو دھماکو مادہ کا استعمال،55 ہزار ٹن ملبہ کی صفائی کے لیے تین ماہ لگیں گے

نئی دہلی: 28۔اگست(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)

دہلی کی سرحد پر موجود اترپردیش کے پاش علاقہ کی حیثیت کےحامل نوئیڈا کےسیکٹر نمبر 93A میں غیرقانونی طریقہ سےتعمیر کردہ سپرٹیک ٹوئن ٹاورس( جڑواں عمارتیں) TwinTower# کوحسب اعلان آج 28 اگست کو ٹھیک ڈھائی بجے دن 3,700 کلو وزنی دھماکو مادہ کے استعمال کے ذریعہ بالآخر انتظامیہ کی نگرانی میں منہدم کردیا گیا۔سپرٹیک لمیٹیڈ کمپنی کے چیئرمین آر کے اروڑہ ہیں جنہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ان جڑواں ٹاورس کے انہدام سے کمپنی کو 500 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق ان ٹاورس کی قمیت 700 تا 800 کروڑ روپئے کی مالیت تھی۔!!

ان ٹاورس کومنہدم کرنے کےلیے 3700 کلوگرام دھماکہ خیزمواد استعمال کیاگیا۔اور 9 سیکنڈ کے اندر 500 کروڑ روپئے مالیتی ان جڑواں ٹاورس کو زمین بوس کرنے کےلیے کئی دنوں سےمنصوبہ تیار کیاگیا تھا اوراس کےلیے مختلف شعبہ جات کےماہرین کی مدد لی گئی تھی۔انہدامی کارروائی میں 360 افراد پرمشتمل عملہ نے نے حصہ لیا۔

ملک کی تاریخ کی اب تک کی یہ سب سےبڑی انہدامی کارروائی مانی جارہی ہے۔جس کےکوریج کے لیے جڑواں ٹاورس کی چاروں جانب میڈیا نے لائیو ٹیلی کاسٹ کےلیے سینکڑوں کیمرےنصب کیےتھے۔اسٹوڈیوز میں اینکرز رقصاں اورخوش تھے کہ غیرقانونی عمارت کا انہدام ہورہا ہے 

آج مٹی کے ڈھیر میں تبدیل اس جڑواں سپر ٹاورس کو دھماکو مادوں سے منہدم کرنے کےلیے 17 کروڑ 55 لاکھ روپئے خرچ ہوئے۔جو کہ ان ٹاورس کے مالکین نے ہی ادا کیے۔ان جڑواں ٹاورس میں 950 فلیٹس تعمیر ہوچکے تھے اور ان میں سے 711 فلیٹس کی بکنگ بھی ہوچکی تھی۔

ان جڑواں ٹاورس کو غیر قانونی طریقہ سےتعمیر کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے ان جڑواں ٹاورس کو گرائے جانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنی مہر ثبت کی تھی۔عدالت کا ماننا تھا کہ ان دونوں ٹاورس کے درمیان ایک مناسب فاصلہ لازمی تھا لیکن تعمیر کے وقت اس پر دھیان نہیں دیا گیا۔ان جڑواں ٹاورس کی تعمیر کا آغاز 2004 میں شروع ہوا تھا۔ان منہدم شدہ ٹاورس میں فلیٹس خریدنے والوں کی رقم بمعہ 12 فیصد سود واپس کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

انہدامی کارروائی کے بعد چیف ایگزیکٹیو آفیسر نوئیڈا اتھارٹی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر ان جڑواں ٹاورس کی انہدامی کارروائی پرمشتمل مکمل ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئےلکھا گیا ہے کہ” وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اورحکومت اترپردیش کی نگرانی میں،نوئیڈااتھارٹی،نوئیڈا پولیس،انتظامیہ اورعوام کے بہتر تعاون سے جڑواں ٹاورس کومحفوظ طریقہ سےمنہدم کردیا گیا”۔ 

سوشل میڈیاکے تمام پلیٹ فارمز پر منہدم ہوتے ان جڑواں ٹاورس کے ویڈیوز تیزی کے ساتھ وائرل ہوگئے۔اور دیکھتے دیکھتے یہ دونوں ٹاورس 80 ہزار ٹن مٹی کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔اس ملبے میں 15 کروڑ روپئے مالیتی اسٹیل موجود ہے۔ان ٹاورس کی بلندی قطب مینار سے اونچی تھی۔انہدامی کارروائی کے ویڈیوز میں دیکھا جاسکتاہے کہ ان جڑواں ٹاورس کے گرنے کے بعد گرد و غبار کے مرغولے اٹھ رہے تھے۔اور یہ گرد وغبارکے بادل زائداز دو گھنٹوں اس علاقے میں چھائے رہے۔

دھماکوں کے ذریعہ ان جڑواں ٹاورس کو گرانے سے قبل قریبی عمارتوں کے 7,000سے زاید مکینوں کو دیگر مقامات پر منتقل ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔اور ان ٹاورس کے چاروں جانب دیڑھ کلومیٹر کا پورا علاقہ خالی کروادیا گیا تھا۔ہیلتھ ایمرجنسی کے طور پر اس علاقہ کے تین ہسپتالوں کو بھی الرٹ رکھا گیا ہے۔

منصوبہ بندی کے مطابق ٹاورس کا ملبہ ایمرالڈ کورٹ کی جانب نہیں گرا بلکہ اے ٹی ایس کی جانب گرا جو ایک محفوظ جگہ مانی جاتی ہے۔جڑواں ٹاورس کےملبہ کی ہیئت پانچ منزلہ عمارت کے مماثل نظرآرہی ہے۔ان ٹاورس کے ملبے کا ڈھیر زائداز 50 سے 60 فیٹ تک پھیلتا ہوا دیکھا گیا جو کہ کسی 5 منزلہ عمارت کے مماثل نظر آیا۔اس ملبہ کا وزن 55 ہزار ٹن بتاگیاہے۔اس علاقہ میں موجود درختوں اور عمارتوں سے دھول اور مٹی کو صاف کرنے کے لیے 50 سے زائد فائرانجن تعینات کیے گئے ہیں۔علاقہ میں آلودگی کی سطح کی نگرانی کے لیے خصوصی مشینیں نصب کی گئی ہیں۔انہدام کے وقت قریبی عمارتوں کو کسی بڑے نقصان پہنچنے کی اطلاع نہیں ہے۔

ان جڑواں ٹاورس کو گرانے کے لیے استعمال ہونے والی دھماکے کی تکنیک کے باعث گھنی آبادی کے درمیان بنائے گئے دونوں ٹاورس اپنی جگہ پر ہی زمین بوس ہوگئے۔تاہم دھماکوں کی شدت سے چند قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹنے اور ایک سوسائٹی کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے کی اطلاعات ہیں۔
دھماکے سے قبل ان جڑواں ٹاورس کےقریب دوسوسائٹیز میں گیس اور بجلی کی سپلائی منقطع کردی گئی تھی۔ ایکسپریس وے کو حسب منصوبہ سوا دو بجے دن بند کردیا گیاتھا۔ایکسپریس وے کے علاوہ اس علاقے سے گزرنے والے مزید پانچ اہم راستوں کو بھی مہربند کردیا گیا تھا۔

سپر ٹیک کی ملکیت کے ان جڑواں ٹاورس کو منہدم کرنے کیے جانے کے نصف گھنٹہ بعددھول اور گرد و غبار کے بادل چھٹتے ہوئے نظر آئے جس کے بعد ان ٹاورس کے عقب میں موجود عمارتیں دھندلی نظرآنے لگی تھیں۔جب ٹاورس ملبے میں تبدیل ہورہا تھا تو نصف کلومیٹر کے دائرہ میں دھول کےمرغولےنظرآرہے تھے۔اطلاعات کے مطابق اب ان جڑواں ٹاورس کا ملبہ اس مقام سے ہٹانے کے لیے تین ماہ کاطویل عرصہ درکار ہوگا۔

یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا کہ 2014 میں اترپردیش کے سب سے پاش مانے جانے والے نوئیڈا میں ایمرالڈ کورٹ گروپ ہاؤزنگ سوسائٹی کی ویلفیئر اسوسی ایشن نے سپرٹیک کمپنی جو کہ آرکے اروڑہ کی ملکیت بتائی گئی ہے کی جانب سے ان جڑواں ٹاورس کی تعمیر کو لے کر سپرٹیک کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ویلفیئر اسوسی ایشن نے الزام عائد کیا تھا کہ جڑواں ٹاورز یوپی اپارٹمنٹس ایکٹ 2010 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائے جارہے ہیں۔

جس پر الہ آباد ہائی کورٹ نے ان جڑواں ٹاورس کو منہدم کرنے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔جس کے خلاف سپرٹیک کمپنی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تھی تاہم سات سال بعد اگست 2021 میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور ایم آر شاہ کی دو رکنی بنچ نےالہ آباد ہائی کورٹ کےحکم کو برقرار رکھا۔عدالتی فیصلہ میں سپرٹیک کےمالکین کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ تین ماہ کےاندر اپنےخرچ پر ان جڑواں ٹاورس کومنہدم کردے اور ساتھ ہی ہدایت دی گئی تھی کمپنی سےفلیٹس خریدنےوالوں کو دو ماہ میں رقم واپس کردے۔ بالآخر آج دوپہر 30-2 بجے دن دھماکہ خیزمواد کا استعمال کرتے ہوئے ان جڑواں ٹاورس کو زمین بوس کردیا گیا۔

ان جڑواں ٹاورس کےانہدام کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی ہے کہ اتنے بڑے جڑواں ٹاورس کی تعمیر کے لیے پہلے اجازت کیوں دی گئی؟اور اس پورےمعاملہ میں ملوث سیاستدانوں اورعہدیداروں کے رول کی تحقیقات کی جائیں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

سوشل میڈیا پر جڑواں ٹاورس کی انہدامی کارروائی کے مختلف ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں۔ان میں ایسے ویڈیوزبھی شامل ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس علاقہ کے چند لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تالیاں بجارہے ہیں۔

ٹائمز ناؤ کے صحافی Prashant Kumar@نے ایسا ہی ایک ویڈیو ٹوئٹ کرتےہوئے لکھا ہے کہ”دنیا دوسروں کی تباہی پر موج کیسے مناتی ہے اس کا ایک پرفیکٹ کیس یہ دیکھئے،کروڑوں روپئے مٹی میں مل گئے اور عوام تالیاں پیٹ رہی ہے۔”

وہیں چندسوشل میڈیاصارفین نےلکھا ہے کہ ان جڑواں ٹاورس کوحکومت کی جانب سےضبط کرتے ہوئےانہیں ہسپتالوں یاکالجوں میں تبدیل کیا جاتا تو بہتر تھا یا پھر حکومت اترپردیش انہیں خود قبضہ میں لے کر فروخت کردیتی تو ریاست کو آمدنی ہوجاتی!!

وہیں "دینک بھاسکر”کے نیشنل ایڈیٹر ایل پی پنت نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ”رشوت کےان جڑواں ٹاورس کوگرانے کے بجائے حکومت کیا یہاں سوپر اسپیشالٹی ہسپتال بھی بناسکتی تھی؟؟۔” 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے