عشق میں رمیش نے دیا دھوکہ،افسانہ بیگم نے اپنا گلا کاٹ خودکشی کرلی

جرائم و حادثات ریاستی خبریں

آغاز بھی رُسوائی ، انجام بھی رُسوائی

عشق میں رمیش نے دیا دھوکہ،افسانہ بیگم نے اپنا گلا کاٹ خودکشی کرلی

کاماریڈی/حیدرآباد 24۔فروری (سحر نیوزڈاٹ کام)
گزشتہ چند سال سے محض مسلم دشمنی اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں بدنام کرنے کی غرض سے ملک میں لوجہاد کاہوا کھڑاکیا ہے۔ یعنی جب کبھی حکمرانوں کے سامنے کوئی جواب دہی کا معاملہ آجائے ” لوجہاد ” کا شوشہ چھوڑ کر مسئلہ کو ہندو۔مسلم منافرت میں تبدیل کیا جائے اس میں آگ لگانے کا کام ایک مخصوص ذہنیت کا میڈیا بہترین انداز میں اورانتہائی وفاداری کیساتھ کرتا رہتاہے کہ آگ بھی لگے اور دھواں بھی اٹھے۔!

بات یہاں تک تو ٹھیک تھی لیکن اس ” لوجہاد ” کے نام پر چند ریاستوں میں باقاعدہ قوانین تک بنادئیے گئے اور کئی مسلم نوجوان گرفتار بھی کرلیے گئے۔لوجہاد کے نام پر یہ پروپگنڈہ شدت کیساتھ کیا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان اپنا مذہب غلط بتاکر ہندو لڑکیوں کو پھنساکر شادی کررہے ہیں اور پھر زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروایا جارہا ہے۔

حالانکہ 2017ء میں کیرالا کے ایک عاشق جوڑے اکھیلا عرف ہادیہ اور شفان جہاں کی شادی کے بعد اس کو لوجہاد کا نام دیتے ہوئے ملک بھر میں مذہبی منافرت کا بیج بونے کی کوشش کی گئی تھی۔ حتیٰ کی این آئی اے جیسے ادارہ کیساتھ ساتھ کئی اداروں کو اس کی تحقیقات پر معمور کیا گیا ، جوڑے کو گرفتار بھی کیا گیا بعد ازاں یہ لوجہاد کا معاملہ سپریم کورٹ میں غلط ثابت ہوا اور جونیئر وزیر داخلہ مسٹر جی۔کشن ریڈی نے 4 فروری 2020ء کو لوک سبھا میں بتایا کہ کیرالا میں لوجہاد کا کوئی معاملہ نہیں ہوا ہے!! جھوٹ پھیلانے والی وہاٹس اپ یونیورسٹی کے ذریعہ جھوٹ پر مبنی لوجہاد کےاس پروپگنڈہ کو ہندو۔مسلم منافرت پیدا کرنے کی غرض سے خوب ہوا دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمان لوجہاد کے ذریعہ اس ملک میں اپنی آبادی بڑھانے میں مصروف ہیں۔!

خیر ریاست تلنگانہ کے ضلع کاماریڈی  میں آج ایک ایسا انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جس نے مسلم معاشرہ کی رسوائی کے اسباب پیدا کردئیے ہیں!! اب اس درناک واقعہ کے لیے ذمہ دار کون ہیں یہ آگے بحث ہوگی پہلے اس افسوسناک اور قابل عبرت معاملہ کی تفصیلات سے واقفیت حاصل کرلیں۔

سب انسپکٹر پولیس راجم پیٹ مسٹر ستیش کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق راجم پیٹ منڈل کے موضع پیندرتی کی ساکن افسانہ بیگم 20سالہ ڈگری کی تکمیل کے بعد اپنے خاندان کی معاشی مدد کرنے کی غرض سے موضع پیندورتی کے قریب موجود ایک ادارہ میں ملازمت کررہی تھیں کہ اسی دؤران اس ادارہ کے ایک ڈرائیور کاماریڈی منڈل، موضع چنا ملاریڈی کے ساکن وینکٹ سوامی سے اس لڑکی کی چار سال قبل پہچان ہوئی اور یہ پہچان محبت میں تبدیل ہوگئی۔

کاماریڈی کے ایریا ہاسپٹل میں افسانہ بیگم کی نعش

جس کی اطلاع افسانہ بیگم کے افراد خاندان کو ہوئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کو اس سے باز رہنے کی متعدد مرتبہ تنبیہ بھی کی لیکن افسانہ بیگم چند دن قبل وینکٹ سوامی کیساتھ لاپتہ ہوگئیں اور اسی دؤران محبت کے نام پر اس معصوم لڑکی کو پھنسانے والا وینکٹ سوامی سدی پیٹ ضلع کے نظام پیٹ پولیس اسٹیشن کے قریب افسانہ بیگم کو چھوڑ کر فرار ہوگیا۔

بعد ازاں پولیس نے افسانہ بیگم کو اسکے مکان واقع موضع پیندرتی پہنچادیا۔ بتایا جاتا ہے کہ افسانہ بیگم کی اس حرکت پر اسکے افراد خاندان نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔!!؟

 

اسی دؤران اس وقت افسانہ بیگم پرمصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اپنے مذہب اور معاشرہ سے بغاوت کرتے ہوئے جس وینکٹ سوامی سے محبت کررہی تھیں اور اسکے ساتھ فرار ہوئی تھیں وہ پہلے ہی سے شادی شدہ اورتین بچوں کا باپ ہے۔
 خودکشی کرلینے والی افسانہ بیگم کی فائل فوٹو

اس اطلاع کے بعد افسانہ بیگم کو یقین ہوگیا کہ محبت کے نام پر وینکٹ سوامی نے انہیں دھوکہ دیا ہے اس سے سخت دلبرداشتہ افسانہ بیگم نے آج تیز دھار چاقو کی مدد سے اپنا گلا کاٹ کر خودکشی کی کوشش کی جنہیں فوری طور پر کاماریڈی کے ایریا ہاسپٹل منتقل کیا گیا جہاں دؤران علاج ان کی افسوسناک موت واقع ہوگئی۔اس سلسلہ میں راجم پیٹ پولیس ایک کیس درج رجسٹر کرکے مصروف تحقیقات ہے۔

ملت اور معاشرہ میں اس طرح کے واقعات وقفہ سے سامنے آرہے ہیں کہ چند ناعاقبت اندیش اور مذہبی تعلیمات سے دور مسلم لڑکیاں اکثریتی فرقہ کے لڑکوں کے عشق میں گرفتار ہوکر مرتد ہورہی ہیں یا پھر خودکشی جیسا انتہائی اقدام کرنے پر مجبو رہورہی ہیں!!

ضرورت شدید ہے کہ اس معاملہ میں معزز علماء کرام اور قوم کا قائد اور رہنماء ہونے کا ہر دوسرا دعویدار اس جانب سنجیدگی سے غور کرے۔ دوسری جانب برسوں سے مسلم معاشرہ کو جہیز کی لعنت نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ جو مالدار طبقہ ہے وہ تو لاکھوں روپیوں میں اپنی بیٹیوں کے لیے شوہر خرید لیں گے لیکن متوسط اور غریب طبقہ کی لڑکیاں کہاں جائیں ؟ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم معاشرہ میں لاکھوں مسلم لڑکیاں اپنی آنکھوں میں اپنے شہزادوں کے خواب سجائے، پریشان حال والدین کی بے بسی و مایوسی کیساتھ ساتھ اپنی ڈھلتی ہوئی عمروں اور اپنے سرکے بالوں میں پیدا ہورہی سفیدی کی صلیب چڑھ رہی ہیں۔!!

جبکہ مالدار طبقہ بیجا اسراف کے ذریعہ اپنے بچوں کی شادیوں پر لاکھوں روپئے خرچ کرنے کو ہی شان سمجھ بیٹھا ہے! جہیز کے نام پر لاکھوں روپیوں کا لین دین، لاکھوں روپیوں کے کرایوں کے حامل فکشن ہالس ، لاکھوں روپئے کے خرچ سے انواع اقسام کے لذیز پکوان اور پھر دیگر بیجا اسراف!

مسلم معاشرہ میں ہونے والی شادیوں کے دؤران بنائے جا رہے شاہانہ اسٹیج کا ایک منظر (تصویربشکریہ: ہنس انڈیا)

اب تو معاشرہ میں سوائے ایک دو تنظیموں کے مخالف جہیز مہم اور اس مہم کے کرتا دھرتاؤں کا بھی دور دور تک پتہ نہیں ہے! جو جہیز کی لعنت کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں ان کی کوئی سننے کو تیار بھی نظر نہیں آتے نہیں !!
ایسے میں اب اکثر یہ محاورہ بھی معاشرہ میں طنزیہ طورپر استعمال ہوتا جارہا ہے کہ "مسجد میں عقد، 25 لاکھ نقد ” !!

ضرورت شدید ہیکہ ارتداد کے ان بڑھتے ہوئے معاملات کو روکنے کیلئے مساجد کے منبر استعمال کیے جائیں ،نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہن سازی کی جائے ،معاشرہ میں شادی کو آسان اور زنا کو مشکل بنا دیا جائے! ورنہ آنیوالی نسلیں کس طرف جائیں گی یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے!

دوسری جانب راجم پیٹ میں پیش آئے اس افسوسنا ک اور قابل مذمت واقعہ کے بعد ان زعفرانیوں سے سوال کیا جائے کہ وینکٹ سوامی کی جانب سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہو کر بھی 20 سالہ افسانہ بیگم کو اپنی محبت کے جال میں پھنساکر خودکشی جیسے انتہائی اقدام کیلئے مجبور کرنے وا لے اس واقعہ کو وہ  کونسے ” جہاد ” کا نام دیں گے؟؟

ضرورت ہے کہ معاشرہ میں موجود ایسی چند بھولی بھالی اور معصوم لڑکیوں کا پتہ لگایا جائے اور انہیں اسلامی تعلیمات کی رؤشنی میں انتہائی نرمی اور اپنے پن کے احساس کے ساتھ سیدھے راستے پر لایا جائے۔کیوں کہ سختی یا زور زبردستی کیساتھ کسی کی بھی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔

اسکے لیے مقامی سطح کی مسلم تنظیموں ،مسلم قائدین ، ذمہ داران اورمسلم نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا ورنہ ایسے واقعات کا سدباب مشکل ہی ہوگا!!