وائرل دھماکہ کی ذمہ داری کون لیں گے!! کنبھ میلہ پرفلم ڈائرکٹر رام گوپال ورما نے اٹھائے سوال
کورونا کی دہشت کے دؤران اُتراکھنڈ میں’مہاکنبھ میلہ‘، لاکھوں کا ہجوم
تبلیغی جماعت کو” کوروناجہادی اور کورونا بم ” کہنے والا ” میڈیا ” اب کیوں خاموش ہے؟
دہرادون: 13۔اپریل
(سحر نیوز ڈیسک/خصوصی رپورٹ)
ملک کی 11 ریاستوں میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے دس ریاستوں کرناٹک دہلی، گجرات،مہاراشٹرا،اتر پردیش،مدھیہ پردیش، ٹاملناڈو، چھتیس گڑھ، کیرالا اور پنجاب میں رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جبکہ مدھیہ پردیش کے دارلحکومت بھوپال میں کل 12 اپریل کی رات سے 19 اپریل کی صبح تک کورونا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔کورونا وائرس کے معاملات کئی ریاستوں بالخصوص مہارشٹرا اور گجرات میں متاثرین میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔
ایسے میں اُترکھنڈ میں’ مہاکنبھ میلہ 2021‘ کل پیر کی صبح سےشروع ہواہے جہاں لاکھوں سادھو سنت اور عقیدتمند شاہی اشنان کیلئے ملک کے کونے کونے سے پہنچے ہیں جس کے دؤران کوروناگائیڈلائنس کی جم کردھجیاں اڑائی جارہی ہیں جبکہ پڑوسی ریاست اترپردیش میں عبادت خانوں میں پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے کی اجازت نہیں ہے۔دوسری ریاستوں میں بھی مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں لیکن ریاست اتراکھنڈمیں’آستھا‘ اور شردھالوکے نام پرنہ توسماجی فاصلہ کا کہیں پتہ ہے اورنہ ماسک کا استعمال ہورہا ہے اورنہ کورونا گائیڈ لائنس پر عمل کیا جارہاہے۔
اس درمیان کمبھ میلہ میں شریک متعدد سادھوؤں اور سنتوں کے کورونا وائرس سے متاثر کی اطلاعات بھی ہیں !!ہری دوار شہر میں موجود دریائے گنگا کے مختلف گھاٹوں پر ایک بڑا ہجوم جمع ہواہے۔مہا کنبھ میلہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کی صبح 10 بجے تک 17 لاکھ 31 ہزار عقیدت مندوں نے اشنان کیاہے۔
یہ تو سرکاری آنکڑا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے لاکھ عقیدت مند کورونا وائرس کے اس قہر کے دؤران ایک جگہ جمع ہوئے ہیں ۔ ہر کسی کا مذہبی عقیدہ ہوتا ہے جس کا احترام کرنا ہر کسی کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن کورونا وائرس کی جاریہ وبا کے دؤران اس طرح خود اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کیساتھ کھلواڑ کی نہ کوئی مذہب تعلیم دیتاہے اور نہ قانون ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔
اسی دؤران آج ہی انڈین ایکسپریس کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ کنبھ میلہ میں کورونا وائرس کی جانچ کا کوئی نظم نہیں ہے نہ تھرمل اسکریننگ سسٹم کا ہی نظم ہے اور نہ ماسک فراہم کیے جارہے ہیں انڈین ایکسپریس کی اسی خبر میں لکھا گیا ہے کہاس کنبھ میلہ میں 102 کورونا پازیٹیوریکارڈ ہوئے ہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق کل پیر کی رات تک گنگا میں 28 لاکھ عقیدتمند دوسرا شاہی اشنان کرچکے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی ایک اور خبر میں لکھا گیا ہے کہ اترکھنڈ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کنبھ میلہ کی نگرانی کیلئے مختلف مقامات پر جملہ 350 سی سی کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماسک نہ پہننے والوں کی اطلاع فوری ان سی سی کیمروں میں نصب سنسر کے ذریعہ پولیس کو حاصل ہوجائے گی !!
کورونا وائرس کی جاریہ ہولناک وباء کے دؤران کنبھ میلہ کے متعلق خود کھلے زہن کے برادران وطن اور چند میڈیا اداروں کی جانب سے اٹھائے رہے سوالوں پر اتر کھنڈ کے چیف منسٹر تیرتھ سنگھ راوت نے ڈھٹائی کیساتھ جواب دیا ہے کہ” کنبھ میلہ کا تبلیغی مرکز سے تقابل نہ کیا جائے!” جبکہ گزشتہ سال وائرس کی وباء کے آغاز سے قبل دہلی کے تبلیغی مرکز میں صرف 3,000 لوگ موجود تھے اوراس وقت کورونا وباء اتنی شدت اختیار نہیں کیا تھا!!اور نہ ہی مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی جانب سے کوئی پابندی ہی عائد کی گئی تھی!
یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انہی دنوں میں کورونا وائرس کی وباء کا آغاز ہوا تھا اس وقت ملک میں 500 سے بھی کم افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے اس وقت مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن نے خود کہا تھا کہ ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایسے میں دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کی مسجد میں پہلے سے طئے شدہ ملکی اور غیر ملکی ذمہ داران کا اجتماع اور اجلاس جاری تھا۔اسی دؤران وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو صرف ساڑھے تین گھنٹوں کا وقفہ دیتے ہوئے رات 12 بجے سے اچانک پورے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تھا جسکے باعث عوام جہاں تھے وہیں پھنس کر رہ گئے تبلیغی جماعت والوں کیساتھ بھی یہی ہوا تھا حالانکہ لاک ڈاؤن کے دؤران ایمرجنسی خدمات کے طورپر تبلیغی مرکز میں پھنسے ہوئے لوگوں کو منتقل کرنے کیلئے ذمہ داران نے بارہا پولیس سے ملاقات کرتے ہوئے اجازت نامہ طلب کیا تھا مختلف بہانوں کے ذریعہ اسے ٹال دیا گیا جس کے باعث تبلیغی مرکز میں لاک ڈاؤن کے باعث افراد پھنسے ہوئے تھے جنہیں انسانی ہمدردی کی ضرورت تھی! اس لاک ڈاؤن کے دؤران پوری دنیا نے دیکھا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں عوام اور مزدور پیشہ لوگ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ پیدل اور سیکلوں پر طئے کرتے ہوئے بھوکے پیاسے بچوں کو اٹھائے ہوئے اپنے اپنے آبائی مقامات پر پہنچے تھے۔اور اس وقت اسی گودی میڈیا کے چند دلال اینکر لائیو شو میں ” انتاکشری کھیلنے میں اور حکمران ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ” رامائن سیرئیل ” دیکھنے میں مصروف تھے!!

لیکن اس ملک کا بکاؤ اور گودی میڈیا کا ایک مخصوص گوشہ نے مصیبت کی اس گھڑی میں اس ایشو کو بھی ہندو۔مسلم بناکر خوب زہر پھیلادیا کورونا جہاد اور مسلمانوں کیلئے کورونا بم جیسا لیبل انہی کمبختوں کی ایجاد ہے اس وقت تبلیغی مرکز دہلی کی مسجد میں پھنسے ہوئے لوگوں کو یہ بکاؤ میڈیا "چھپے ہوئے” کا لفظ استعمال کیا کرتا تھااور روزآنہ اس معاملہ پر کئی کئی گھنٹوں تک ٹی وی پر ڈیبیٹ ہوتے تھے کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے جیسے تبلیغی جماعت اور مسلمان ذمہ دار ہیں۔
اور اسی دلال اور گودی میڈیا کا بہت بڑا گوشہ کورونا کے قہر کے دؤران جاری ” کنبھ میلہ ” کے شرکاء کو آستھا اور شردھالوؤں کے ناموں سے منسوب کررہا ہے!!
اس زہر کا ایسا اثر ہوا کہ ملک کے کسی بھی شہریا قریہ میں کوئی تبلیغی جماعت نظرآتی تو ان پر حملے ہوتے،غریب مسلم بیوپاریوں سے دیگر اقوام کے لوگوں نے خرید و فروخت بند کردی تھی حتیٰ کہ مسلم محلہ جات میں جانے سے بھی خوفزدہ تھے اور باقاعدہ مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا جس کا صد فیصد ذمہ دار یہی گودی اور بکاؤ میڈیا ہے!!
بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی اس بکاؤ اور گودی میڈیا نے اِدھر اُدھر سے کئی ویڈیوس لالاکر روز کئی گھنٹوں تک زہریلی سرخیوں کیساتھ نشرکرنے لگے کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کورونا وائرس متاثرین ہسپتالوں میں نرسوں کے سامنے نیم برہنہ گھوم رہے ہیں، ذہنی طورپر بیمار یہ زیادہ تر دلال اینکرس چلا چلا کر کہتے کہ یہ لوگ ڈاکٹرس اور طبی عملہ پر تھوک رہے ہیں اورہسپتالوں کے وارڈس میں ہی پیشاب کررہے ہیں!
جبکہ بعد میں خود ہسپتالوں کے انتظامیہ اور Fact Checkers نے ان تمام اطلاعات کو جھوٹا اور بے بنیاد ثابت کردیا! پھر بھی ان میڈیا ہاوزس اور بے شرم اینکرس کو آج تک شرم چھوکر بھی نہیں گزری ہے!اسی روِش پر اب بھی قائم ہیں!!
اس سلسلہ میں اُس وقت خود کو مہا سیکولر کہنے والے دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کا رول بھی قابل مذمت رہا ہے کیونکہ گزشتہ سال جب دہلی حکومت کی جانب سے روزآنہ کورونا متاثرین کی تعداد پرمشتمل رپورٹ جاری کی جاتی تھی تو اس میں باقاعدہ دہلی کے تبلیغی مرکز کا کالم ہی الگ ہوا کرتا تھا کہ آج مرکز میں اتنے لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ۔ بعد ازاں اقلیتی کمیشن اور مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اس رپورٹ سے اس کالم کو ہٹادیا گیاتھا!
دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ملکی اورغیر ملکی تبلیغی جماعت کے ارکان کو گرفتار بھی کیا گیا اور مہینوں انہیں جیلوں میں رکھا گیا بعد ازاں ممبئی ہائیکورٹ کی ناگپور بنچ کے علاوہ دہلی اور دیگر شہروں کی عدالتوں نے انہیں باعزت بری کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ انہیں بلی کا بکرا بنایا گیا ہے!
اترکھنڈ میں جاری کنبھ میلہ پر سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارمس بالخصوص ٹوئٹر ، فیس بک اور وہاٹس اپ پر جم کر بحث ہورہی ہے اور اس سلسلہ میں مرکزی اور ریاستی حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مغربی بنگال میں انتخابی مہم کے دؤران منظم کردہ ریالی میں ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ، اور ہجوم دیکھا جاسکتاہے۔
کئی اہم شخصیتوں کے علاوہ عام لوگ سوشیل میڈیا پر لگاتار یہ سوال کررہے ہیں کہ ملک کی پانچ ریاستوں مغربی بنگال،آسام،کیرالا،پانڈیچری اور ٹاملناڈو کی انتخابی ریالیوں اوراتر کھنڈ میں جاری مہاکنبھ میلہ میں کورونا وائرس کیوں نہیں ہے؟ جن میں لاکھوں کا مجمع جمع ہورہا ہے!!
ایسے میں مشہورفلم پروڈیوسر اور ڈائرکٹر رام گوپال ورما جو کہ ہر معاملہ میں بے خوف سوشیل میڈیا پر لکھنے کیلئے مشہور ہیں نے آج ٹوئٹر پر کنبھ میلہ اور تبلیغی جماعت والوں کی تصاویر کیساتھ وقفہ وقفہ سے " پانچ ٹوئٹ ” کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ
What you are seeing is not KUMBH MELA but it’s a CORONA ATOM BOMB ..I wonder who will be made accountable for this VIRAL EXPLOSION pic.twitter.com/bQP9fVOw5c
— Ram Gopal Varma (@RGVzoomin) April 13, 2021
” جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ کنبھ میلہ نہیں بلکہ کورونا ایٹم بم ہے، اور میں حیران ہوں کہ اس وائرل (گھومتے پھرتے) دھماکہ کی ذمہ داری کون لے گا”؟ "
اپنے دوسرے ٹوئٹ میں رام گوپال ورما لکھتے ہیں کہ "
The Delhi Jammat super spreader of March 2020 is like a short film compared to today’s BAHUBALIian KUMBH MELA ..All us Hindus owe an apology to Muslims because they did back then when they dint know and we did this one year after we fully know 🙄🙄🙄 pic.twitter.com/2fMF3uUtiG
— Ram Gopal Varma (@RGVzoomin) April 12, 2021
رام گوپال ورما کا تیسرا ٹوئٹ :
KUMBH MELAAA 😳🙄🙄GOOD BYE INDIAAA💐💐💐WELCOME CORONAA💃💃💃 pic.twitter.com/GZgpFwuU1l
— Ram Gopal Varma (@RGVzoomin) April 12, 2021