انصاف زندہ ہے ، دہلی فساد کے دو ملزم عدالت سے بری

قومی خبریں

انصاف زندہ ہے ، دہلی فساد کے دو ملزم عدالت سے بری

نئی دہلی 3۔مارچ ۔(ایجنسیاں/سحرنیوز ڈاٹ کام)
گزشتہ سال کے اوائل میں دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جعفرآباد،موج پور فسادات میں بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور اس فساد میں مسلم طبقہ کو شدید جانی ومالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔انتظامیہ ، فسادیوں اور گودی میڈیا نے اس فساد کو ایسارنگ دیاتھا کہ جیسے اس فساد کے اصل ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ چوطرفہ یہ کھیل کھیلتے ہوئے مسلمانوں کو ہی اصل ویلن بناکر پیش کیا گیا۔جبکہ دنیا جانتی ہے کہ شاہین باغ کے نام پر کس کس نے کونسا کونسا کھیل کھیلا تھا اور کس نے کیا کیا دھمکیاں دی تھیں؟جس کے بعد دہلی فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جھونک دی گئی تھی!!

Delhi Violence 2020 (File Photo)

وقفہ وقفہ سے اب عدالتو ں کے ذریعہ ایسے فیصلے صادر ہورہے ہیں جس سے یہ احساس مزید مضبوط ہوجاتا ہے اس ملک میں انصاف ابھی زندہ ہےکیونکہ عدالتوں نے کئی معاملات میں پولیس کی جانب سے فراہم کردہ ثبوتوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ملزمان کوبری کردیاہے۔

دہلی کی ایک عدالت نے آج 2020 ء دہلی فسادات کے دؤران ایک شخص کو گولی مار نے کے الزام میں گرفتار دو افراد کو بری کردیا۔دہلی کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے دہلی فسادات کے دو ملزمین عمران اور بابو کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں روسی ناولسٹ فیوڈور دوستوفسکی کے مشہور ناول (Crime and Punishment) کا یہ جملہ بھی لکھا کہ:
‘From a hundred rabbits you can’t make a horse, a hundred suspicion don’t make a proof
” جس طرح آپ سو خرگوشوں سے ایک گھوڑا نہیں بناسکتے اسی طرح سینکڑوں شکوک مل کر ایک ثبوت نہیں بن سکتے!”

دراصل عمران اوربابو پر گزشتہ سال 25 فروری کوموج پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور ان دونوں پر ہنگاموں کے الزامات سے بھری ہوئی ایف آئی آر میں فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت نے پایاہے کہ مبینہ مقتول نے جعلی ایڈریس اورموبائل نمبر دیا تھا اور اس نے کبھی کسی پولیس افسر کو کوئی بیان نہیں دیا تھا۔اپنے حکم میں عدالت نے کہاہے کہ جب تک پولیس ہسپتال پہنچی مبینہ طور پر متاثر راہل لاپتہ ہو گیا۔

Delhi Violence 2020 (File Photo)

راہل نے ابتدائی بیان دیا اور پھر غائب ہوگیا۔ پولیس نے کبھی راہل کو نہیں دیکھا کس کو اور کس نے گولی ماری تھی؟اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ فائرنگ کے بارے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔عدالت نے کہاہے کہ اس معاملے میں پولیس کے پاس بطور ثبوت کانسٹیبل پشکر موجودہیں لیکن انہوں نے بھی عمران اور بابو کو فائرنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

استغاثہ نے استدلال پیش کیاہے کہ دونوں مشتعل افراد بھیڑ کا حصہ ہیں اور شبہ ہے کہ فائرنگ کے دونوں ذمہ دار ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں قتل یا آرمس ایکٹ کی کوشش کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیاہے۔

Delhi Violence 2020 (File Photo)

اس طرح ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے پولیس کے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے عمران اور بابو کو اس قتل کے معاملہ سے بری کردیا۔ آج کے عدالت کے اس اس فیصلہ پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو ” !!