ابابیلوں کے لشکر نے ابرہہ کی فوج پر کنکریاں برسائیں تو یہ فوج اپنے ہاتھی سمیت فنا ہوگئی۔ایک مچھر نے خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کا انجام عبرتناک کردیا اور کورونا کا جرثومہ جو ایک معمولی مچھر سے کئی بلین گنا چھوٹا جو خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا اس نے عالمی طاقتوں کو بے بس اور محتاج کرکے رکھ دیا۔
کوویڈ کی دوسری لہر کو سونامی کا نام دیا گیا ہے جس رفتار سے لوگ مررہے ہیں اس سے یہ ڈر پیدا ہورہا ہے کہ ان اموات کی خبر دیکھتے پڑھتے کہیں خود بھی خبر نہ ہوجائیں!!
اپنے آپ کو سوپر پاور سمجھنے اور ظاہر کرنے والے ممالک ہو یا عارضی کامیابی سے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے نادان اور نااہل سیاست دان سبھی پریشان ہیں مگر وہ حالات سے سبق نہیں لیتے اس لئے کہ انہیں اس کی نہ تو توفیق ہوئی ہے نہ ہدایت
2020ء سے 2021ء تک کتنا بدل گیا گزشتہ سال کورونا کے پھیلاؤ کے لئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔اس کی آڑ میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف کس نے زہر نہیں اُگلا ٹی وی چیانلس کے اینکرس گلا پھاڑ پھاڑ کرمسلمانوں کے خلاف ہندوستانی عوام کو ورغلاتے رہے۔
ارباب اقتدار نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی دشمنی نکالنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
وقت گزر گیا،مسلمان تو ہر دؤر میں ایسے حالات سے گزرتے رہے ہیں ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کورونا وبا نہ بھی پھیلتی تب بھی کسی نہ کسی بہانے ان سے دشمنی کی ہی جاتی۔مسلمان صبر کا گھونٹ پی لیتا اور سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتا کہ اللہ ہی سزا دینے والا ہے۔
اگرچہ کہ اکثر یہ سزا بہت دیر سے دی جاتی ظالم کو اس قدر ڈھیل ملتی کہ وہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا مگر اس مرتبہ فیصلوں میں دیر نہیں ہوئی زہر اُگلنے والے ٹی وی اینکرس کا کیا حال ہوا، ساری دنیا جانتی ہے جس طرح سے یہ ذلیل و خوار ہوئے کہ خود اپنی نظر سے آپ گرگئے۔
تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں سے تعصب اور دشمنی کرنے والے ایسے کئی اندھے بھکت خود کورونا کا شکارہوئے بلکہ خاندان کے خاندان کا صفایا ہوگیا۔پھر ایک ہی سال میں قدرت نے کچھ ایسا منظر بدلا کہ کورونا کے پھیلاؤ کے لئے جماعتیوں کے خلاف نفرت انگیز پروپگنڈہ کرنے والے خود عام ہندوستانیوں کی نفرت کا شکار ہوگئے۔جس عوام نے اکثریت کے ساتھ اقتدار کی کرسی پر لاکر بٹھایا تھا اُسی عوام نے متحدہ اور متفقہ طور پر اپنے انتخاب پر پشیمانی کا اظہار کیا۔
اور کرسی پر براجمان عناصر کو نااہل بلکہ قوم کا قاتل قرار دیا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو تی، ساری دنیا نے بھی ہندوستانی عوام کے جذبات سے یگانگت کا اظہار کیا۔اور اقتدار کی خاطر کورونا کی دوسری لہر کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں مذمت بھی کی اور سرزنش بھی۔
کمبھ میں جو کچھ ہوا،جس طرح سے حفظان صحت کے اصولوں کو پامال کیا گیا۔
الیکشن ریالیوں میں جس طرح سے سماجی فاصلے اور فیس ماسک سے خود کو بڑے بڑے نیتاؤں نے بے نیاز رکھا۔اس کے نتائج تو بہرحال نکلنے ہی تھے،اور جب نتائج سامنے آنے لگے تو اچھے دن کا خواب دکھانے والوں کو اپنے بُرے دن صاف دکھائی دینے لگے۔
ہاسپٹلس میں بدانتظامی، رشوت خوری، آکسیجن، بیڈس کی کمی، دم توڑتے ہوئے مریض، قبرستانوں اور شمشانوں میں اپنی باری کے منتظر مرنے والوں کے رشتہ داروں کی آہ و بکا۔
متاثرین کی تعداد میں ہر روز دوگنا ،تین گنا اضافہ نے ہندوستان کو ساری دنیا میں ایک عجیب و غریب ملک بناکر رکھ دیا اگرچہ کہ ہر ملک نے اپنے طور پر دست تعاون دراز کیا۔چوں کہ ابتداء ہی سے ملک کو اور ملک کی ہر چیز کو بیچ دینے کی عادت ہوگئی ہے لہٰذا بین الاقوامی تعاون اور امداد کے باوجود
ہمارے ملک کے وہ عناصر جن کے منہ کو خون لگا ہوا ہے وہ موت کے سوداگر بن گئے۔ویکسین کی آڑ میں تجوریاں بھرنے کاعمل شروع ہوا۔
بھلا ہو اروند کجریوال کا جنہوں نے پردھان سیوک کے ساتھ اپنی ورچول میٹنگ لائیو ٹیلی کاسٹ کروادی جس میں انہوں نے چبھتے ہوئے سوال کئے کہ وَن نیشن، وَن الیکشن، وَن کارڈ کی بات کرنے والے ایک ملک میں ایک ہی ویکسین کی علیحدہ علیحدہ قیمت کیسے مقرر کرسکتے ہیں؟
اگر کجریوال ”پروٹوکول“ کی خلاف ورزی نہ کرتے ان کی بات چیت اور سلگتے سوال منظر عام پر نہ آتے تو حکومت ویکسین تیار کرنے والی فارما سیوٹیکل کمپنیز کو اپنی قیمتوں کے تعین پرنظر ثانی کی ہدایت نہ دیتی۔

قدرت کے کھیل اور اس کے فیصلوں کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں۔انسان اپنے شاطر دماغ کا استعمال کرتاہے کبھی کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔مگر اکثر اوقات اس کی شاطرانہ چالیں خود اس کے خلاف ہوجاتی ہیں۔
جیسے بنگال میں ممتا بنرجی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے الیکشن کمیشن کو کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کے ذریعہ 8 مراحل میں الیکشن کا انعقادعمل میں لایا گیا۔ پانچویں مرحلہ کے بعد سے ہی جس طرح سے کورونا کی لہر میں شدت پیدا ہوئی، جس طرح سے چاروں طرف سے الیکشن کمیشن اور اس کے آقا پر تنقید ہونے لگی، اس کے بعد مجبوراً ریالیاں منسوخ کردینی پڑیں ورنہ منصوبہ تو یہی تھا کہ آخری دو مراحل میں ان ریالیوں کے ذریعہ عوامی ذہن کو بدلا جاسکے۔
مگر اس کے برعکس ہوا، بنگال کے عوام کو بھی احساس ہوگیا کہ کورونا کی لہر کے لئے کون ذمہ دارہے اب اگر ای وی ایمس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی تو نتائج یقینی طور پر ممتا کے حق میں ہوں گے اور اس کے زیادہ امکانات ہیں۔
چونکہ الیکشن کے دوران ای وی ایم مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی،بی جے پی میدواروں کی گاڑی سے یہ مشینیں ضبط ہوئیں، بعض پولنگ بوتھس میں ای وی ایم کے تار بدلتے ہوئے عہدیدار پکڑے گئے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اس کااثر انتخابی نتائج پر منفی نہ ہو یہ بہتر ہے۔
مجموعی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ ہندوستان کے شاطر دماغوں نے جو چالیں چلیں وہ ان کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوئیں۔اس ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کاخواب دکھاکر دوبار اقتدار حاصل کیا گیا اور ہندوستانیوں کی اکثریت جن میں نوجوان نسل شامل ہے، ان کی جس منظم طریقے سے ذہن سازی کی جارہی ہے اس کی وجہ سے ان کی اقتدار کی راہیں آسان ہوگئی ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے زیادہ طاقتور کوئی اور ہے جس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
ایک سال میں جو کایا پلٹ ہوئی ہے، اس میں بھلے ہی ان کے اقتدار کو خطرہ نہ ہو، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ دل سے اُترکر جوتیوں میں آگئے!! حالات سے سبق وہی لیتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہوتا اور اس کے لئے بھی خالق کائنات کی ہدایت اور توفیق ضروری ہے۔
یہاں تو معاملہ اُلٹاہے جتنی ٹھوکریں کھارہے ہیں، اتنا زیادہ آسمان دیکھ کر چلنے لگے ہیں۔مسلم دشمنی کی انتہا کی تین مثالیں ہیں۔
28 اپریل کو اُجین (مدھیہ پردیش) میں ایک مسلم خاتون نوری خان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کورونا مریضوں کے لئے اپنے طور پر آکسیجن سیلینڈرس کی فراہمی کا اہتمام کیا۔ایک مسلم خاتون کی کاوش کو سراہنے کی بجائے اس الزام کے تحت کہ اس نے حکومت اور انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔مدھیہ پردیش میں بے ایمانی سے اقتدار پر براجمان بی جے پی ہے۔
اُترپردیش حکومت نے بھی ایسا ہی کیا تھا ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ جنہوں نے گورکھپور کے ہاسپٹل میں معصوم بچوں کی جانیں بچانے کیلئے اپنے طور پر آکسیجن سلینڈرس کا انتظام کیاتھا، گورکھپور آدتیہ ناتھ کا حلقہ ہے اپنے ہی حلقہ میں ایک مسلم ڈاکٹر کو بھلا وہ عوامی ہیرو بنتے کیسے دیکھ سکتا تھا لہذاٰ مختلف الزامات عائد کرکے انہیں جیل بھیجا گیا،ان کے خاندان پر مظالم ڈھالے گئے، ان کے خلاف سنگین مقدمات درج کئے گئے۔
ڈاکٹر کفیل خان بھی پٹھان کا بچہ ہے، جان دے سکتا ہے گھٹنے نہیں ٹیک سکتا اس کی تنہا آواز کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دینے لگی اور وہ حق و صداقت کی آواز کا ترجمان بن گئے۔
ایک اور مثال کیرالا سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کی ہے جو مسلسل قید میں ہے‘ ان کا قصور یہی ہے کہ انہوں نے اترپردیش کے ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی واقعہ کی رپورٹنگ کے لئے وہاں کا سفر کیاتھا ان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔
ہندوستان میں نفرت کی آگ بھڑکانے والے ارنب گوسوامی جیسے عناصر کو فوری ضمانت مل جاتی ہے اور صدیق کپن جیسے صحافی جیلوں میں سڑائے جاتے ہیں!! مسٹر وی این رمنا نے چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ کا جائزہ لیا تو ان کے سابقہ ریکارڈ کی بناء پر یہ امید جاگی کہ شاید عدلیہ ایک بار پھر سیاسی شکنجہ سے آزادہوگا۔
چنانچہ صدیق کپن کی اہلیہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب لکھا جس میں انہیں بتایا کہ ان کے شوہر کورونا کے مریض ہیں اور انہیں ہاسپٹل کے بیڈ پر جانور کی طرح زنجیروں سے جکڑ کر باندھا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے فوری اس کی سماعت کی حکومت اترپردیش سے میڈیکل رپورٹ طلب کی اور پھر حکومت اترپردیش کے سالیسیٹر جنرل نے اس سماعت کو موخر کرنے کی مانگ کی تو چیف جسٹس نے اسے مسترد کردیا اور 28 اپریل کو میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر صدیق کپن کو دہلی کے ہاسپٹل منتقل کرنے کی ہدایت دی جہاں علاج کے بعد دوبارہ انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔
بہرحال صفورہ زرگر،عمر خالد اور کس کس کے نام لئے جائیں کہ کس طرح سے نام دیکھ کر کاروائی کی جاتی ہے۔
کورونا جیسے حالات کے باوجود اگر یہ بے حس لوگ سبق حاصل نہیں کرتے تو پھر ان کا انجام خود ایسا ہوگا کہ آنے والی نسلیں اس سے سبق حاصل کریں گی!
مضمون نگار :- ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد ۔ فون:9395381226