
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی ،حیدرآباد
۔۔فون : 9395381226 ۔۔
سال 2021ء کے آغاز کے ساتھ امید کی جارہی تھی کہ کورونا کی نحوست سے دنیا پاک ہوجائے گی۔ویسے روز مرہ کی سرگرمیاں بحال ہونے لگی تھیں۔ مگر ایک بار پھر کورونا یا کووڈ 19 نے پوری شدت سے دوبارہ حملہ کیا۔اور اس مرتبہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ وائرس مختلف اقسام کاہے۔ دنیا میں کہیں اس کا وجود نہیں ہے مگر ہندوستان کی 18ریاستوں میں E48Q اور L452R پایا گیا۔
10ہزار سے زائد افراد میں کورونا ٹسٹ کے دوران کم از کم 771 افراد میں اس کے اجزاء پائے گئے۔ایک بار پھر ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر تعلیمی ادارے بند کئے جاچکے ہیں۔ شادی خانوں میں 100سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہے۔
جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں‘ یہ اندیشے بڑھتے جارہے ہیں کہ 2020 کی طرح اس سال بھی ماہ رمضان المبارک کے دوران مساجد میں پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں (اللہ نہ کرے)۔ 2020 نے جو زخم دیئے وہ ابھی تازہ ہیں۔ جانی نقصانات اپنی جگہ۔ جو دنیا سے گزرگئے وہ گزرگئے۔ جو زندہ رہ گئے ہیں انہیں ایک بار پھر معاشی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
مالی بدحالیوں کے دلدل سے ابھی نکل بھی نہ پائے تھے کہ ایک بار پھر اسی دلدل میں دھنسنے کا احساس ہونے لگا ہے۔ کیا دنیا اس مرتبہ کرونا کی تازہ حملے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے؟ کیوں کہ 2020 میں ساری دنیا جس تباہی اور بربادی سے دوچار ہوئی اس سے سنبھلنے کے لئے برسوں لگ جائیں گے۔ اب کورونا اپنا روپ بدل بدل کر ایسا ہی واپس آتا رہے گا تو شاید حالات کے معمول پر آنے کا محض تصور رہ جائے گا۔
دنیا کی تباہی اپنی جگہ‘ ہندوستان کو یومیہ 32 ہزار کروڑ کا نقصان ہوتا رہا۔ایسا کونسا شعبہ تھا جو تباہ نہیں ہوا سوائے فارماسیٹیکل کمپنیز کے سبھی نقصان میں رہے۔ فارماسیٹیکل کمپنیز نے 55 ارب روپئے کا بزنس کیا۔ اگر چین سے تعلقات بہتر ہوتے‘ وہاں سے میڈیکل اکوپمنٹس امپورٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہتا تو شاید یہ بزنس دوگنا ہوتا۔ پھر بھی ہندوستان نے دنیا کی ترقی یافتہ ممالک امریکہ، کنیڈا کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو ہائیڈرو زائیکولوکوئین جیسی ڈرگس بھاری مقدار میں ایکسپورٹ کی۔
جس سے ہندوستان کا قد واضح ہوا۔اور اس کی فارماسیٹیکل کمپنیوں کا وقار بلند ہوا۔ مگر جو نقصان شہری ہوابازی، ٹورزم ریستورنٹ چین کو ہوا وہ ناقابل تلافی رہا۔ شہری ہوابازی یا فضائی سفر پر پابندی کی وجہ سے 38بلین افراد متاثر ہوئے۔ 70فیصد ورک فورس متاثر ہوئی۔ اور 85 بلین روپیوں کا نقصان ہوا۔ آمد و رفت پر پابندی‘ سفری تحدیدات کی وجہ سے آئیل اور گیاس کی کھپت پر اثر ہوا۔بیروزگاری کا گراف 26 فیصد تک پہنچ گیا۔ گھروں میں کام کاج کرنے والی 45فیصد خواتین بے روزگار ہوگئیں۔
تعمیراتی شعبہ اس لحاظ سے متاثر تھا کہ مزدوروں کی بڑے پیمانہ پر شہروں سے اپنے آبائی وطن کو پیدل واپسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایل این ٹی، الٹراٹیک سیمنٹ، برلا، بی ایچ ای ایل، بھارت فورج جیسے ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ناقابل بیان خسارہ ہوا۔ الکٹرانکس اشیاء کے استعمال میں 40 فیصد کمی ہونے کی وجہ سے کئی بڑی کمپنیاں وقتی طور پر بند ہوگئیں۔ اچھے خاصے لوگ گھروں میں رہ کر دوسروں کے محتاج بن گئے۔ ہر طرف موت کا وحشیانہ رقص اور خوفناک ماحول کچھ واقعی مرض کا شکار ہوئے۔
کچھ خوف کا شکار اور کئی ایسے واقعات بھی پیش آئے جب کورونا سے متاثر ہونے کے اندیشے سے لوگوں نے خودکشی کرلی۔ 2020ء کے مقابلے میں 2021ء میں یقینی طور پر اثرات اور شدت میں کمی ہوگی کیوں کہ ایک سال کے عرصہ میں سائنسدانوں نے بہت ساری وجوہات کا پتہ چلایا ہے۔ اور عام آدمی بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں اس مرتبہ بڑی حد تک خوف کے خول سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا ہے اسے احتیاطی تدابیر کی عادت ہوئی مگر ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ بچ گئے یا متاثر افراد پر اللہ کا کرم ہوا وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب وہ وائرس پروف ہوگئے ہیں‘ چنانچہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے ہیں جس سے وہ اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں۔
چہرے پر ماسک، حلق اور ناک میں بھاپ، نیم گرم پانی سے حلق کا غرارہ اور ناک میں پانی چڑھانا، بار بار صابن سے ہاتھ دھونا، مصافحہ سے حتی الامکان گریز کرنا، سماجی فاصلہ کا لحاظ کرنا، بازاری غذاؤں سے احتیاط برتنا وغیرہ وغیرہ۔ہم باربار یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم مسلمان جو پنج وقتہ نماز کے عادی ہیں‘ جو نماز کی ادائیگی کے علاوہ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی ہیں‘ یہ وائرس سے محفوظ رہیں گے۔
یہ ہمارایقین اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ مگر اس بات کا بھی دیانت داری کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائز لیں کہ گزشتہ ایک برس کے دوران کورونا سے متاثر ہوکر اللہ کو پیارے ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ بڑے بڑے علمائے کرام اور اکابرین دین جن کی زندگی ذکر الٰہی میں گزر جاتی ہے وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اور خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں‘ جو عمر کے ایسے حصہ میں تھے جہاں کورونا نہ بھی ہوتا تب بھی ان کی موت طبعی ہوتی۔
کئی نوجوان بھی اللہ کو پیارے ہوئے اور اگر کورونا نہ بھی ہوتا تب بھی کوئی انسان اپنے مقررہ وقت سے ایک سکینڈ پہلے مرنہیں سکتا۔ موت برحق ہے۔ یہ ایمان ہے مگر اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم احتیاط نہ کریں۔ وائرس چاہے کسی بھی قسم کا ہو۔ عموماً بداحتیاطی اور حفظان صحت کے اصولوں سے دور رہنے کی وجہ سے حملہ کرتاہے اور اپنااثر دکھاتاہے۔ ہم نے چہرے پر ماسک تو لگانا شروع کیا مگر کیا ہم اپنے پورے وجود کو اور اپنے گھر اور اپنے اطراف کے ماحول کو مکمل طور پر صاف ستھرا رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس بات کا جائزہ لینا سب سے زیادہ اہم ہے۔
کورونا کی پہلی لہر سے شیرخوار اور کمسن بچے متاثر نہیں ہوئے تھے‘ مگر دوسری لہر سے شیرخوار بچہ بھی متاثر ہورہے ہیں۔جو سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ بچو ں کی صحیح نگہداشت، بروقت علاج نہ ہو تو اس کے اثرات کہیں بچے کی نشوونماپر اثرا انداز نہ ہو۔گھر کے ضعیف افراد کے زیادہ اثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالانکہ معصوم بچے اور ضعیف افراد اپنے گھروں کے چار دیواری میں محفوظ ہوتے ہیں۔وہ لوگ جن کی باہر آمدو رفت ہوتی ہے ان سے پہلے بھی وائرس پھیلتارہااور اب بھی اس کا اندیشہ ہے۔
2020 میں کورونا کے پھیلاؤ کا الزام مسلمانوں کے ساتھ تھوپ دیا گیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ بیشتر جماعتی ارکان ڈیڑھ برس تک ذہنی اذیت سے دوچار رہے۔ رمضان المبارک کے دوران حرمین شریفین سے لے کر محلے کی مساجد تک بند رہیں۔ جس سے جذباتی اور نفسیاتی طور پر مسلمان ایک عجیب سے دباؤ کے شکار ہوئے۔اس کے علاوہ مختلف فتوؤں کی روشنی میں جان بچانے یا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے نماز کے بعض اصولوں میں تک تبدیلی کردی گئی جیسے پہلے بچپن سے یہ بات ذہن نشین کروائی جاتی تھی کہ نماز کی صفوں میں اگر ذرا سابھی خلا ہوجائے تو وہاں شیطان آکھڑا ہوتا ہے کورونا نے ہر دو کے درمیان شیطان کے کھڑا ہونے کاجواز فراہم کردیا۔
تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ یہ مظاہرہ ہوا کہ کس انسان کو جسے موت کے برحق ہونے کا یقین ہے‘ جسے اپنی زندگی کتنی عزیز ہے۔ اور اپنی زندگی بچانے میں اس نے کس طرح سے خونی رشتوں سے تک منہ موڑ لیا بھلے ہی کوئی بہانا کوئی مجبوری ہو۔
کورونا کی دوسری لہر اس وقت تک رہے گی جب تک عالمی مارکٹ میں دستیاب ہر قسم کے ویکسن کے تجربات کامیاب نہ ہوجائیں۔ اب تو ویکسین کے استعمال کے لئے حرام حلال کی فکر بھی ترک کردینی ہوگی کیوں کہ اس کے بغیر مقدس مقامات کی اجازت نہیں ہوگئی۔ اور جب ساری دنیا کے علماء وقت ایک اجتماعی فائدہ کے لئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں، فتویٰ دیتے ہیں تو اسے قبول کرناہی ہوتاہے۔ یہ وقت بعض معاملات میں الجھ کر آپس میں نفاق اور انتشار پیدا کرنے کا نہیں ہے۔ بلکہ سب مل کر حالات سے مقابلہ کرنے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا ہے۔
2020 کے حالات کے بعد مسلمانوں میں بڑی حد تک تبدیلی آئی تھی۔ کچھ سبق حاصل کیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایسا لگتاہے کہ وہ سبق بھلایا جارہا ہے۔چاروں طرف موت کی پرچھائیاں دیکھ کر ہم اللہ کے قریب ہوگئے تھے‘ ایک بار پھر قربت میں کمی آنے لگی ہے۔ ایک بار پھروہی حالات دہرائے جارہے ہیں۔ یقینااللہ سے قربت سے جو قلبی طمانیت حاصل ہوتی ہے‘ وہ سب سے بڑی قوت مدافعت یا امیونٹی پاور ہے۔ مساجد میں باقاعدہ قنوت نازلہ پڑھی جارہی تھی۔ یہ ہماراایمان ہے کہ قنوت نازلہ سے آنے والی بلائیں ٹل جاتی ہیں تو پھر کیوں نہ اس ماہ مبارک میں قنوت نازلہ کے سلسلہ کا دوبارہ آغاز کیا جائے۔
ہماری روز مرہ کی عادات و اطوار میں تبدیلی لائی جائے۔ سادگی کو طرز زندگی بنالیاجائے۔ آنے والے حالات کیا ہوں گے کہا نہیں جاسکتا کل کیا ہوگا صرف اللہ جانتاہے۔ یقینا توکل علی اللہ ہماراایمان ہے۔ ساتھ ہی تدبر، فراست، دور اندیشی بھی ہمارے ایمان کا جز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں اُس وقت کے بادشاہ مصر نے بار بار خواب دیکھا تھا کہ جس سے وہ پریشان تھا۔ کسی کے مشورہ پر اس نے جیل میں قید حضرت یوسف علیہ السلام سے اس خواب کی تعبیر پوچھی کہ سات موٹی تازی گائے سات دبلی پتلی گایوں کو کھارہی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر بتائی کہ سات برس تک اچھی بارش ہوگی‘ اچھی فصل ہوگی پھر سات برس تک بارش نہیں ہوگی اور قحط سالی رہے گی۔ اس کا علاج آپ نے بتایا کہ سات برس جو اچھی فصل ہوگی اسے اگلے سات برس کی قحط سالی کے دوران کیلئے ذخیرہ کرلیا جائے۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ غلے کی راشننگ یہیں ہوئی تھی۔ ہم اس واقعہ سے سبق لیں اور آج اگر حالات اچھے ہیں تو کچھ بچت کرتے ہوئے آنے والے برے حالات کیلئے تیاری کریں۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ ، حیدرآباد فون:9395381226 مضمون بشکریہ : ہفت روزہ گواہ ۔حیدرآباد۔انڈیا