اتر پردیش میں سارس کی ضبطی کے بعد عارف کے خلاف محکمہ جنگلات نے کیس درج کرلیا، پانچ مختلف دفعات کے تحت نوٹس جاری

سوشل میڈیا وائرل قومی خبریں

اتر پردیش میں سارس کی ضبطی کے بعد عارف کے خلاف محکمہ جنگلات نے کیس درج کرلیا
پانچ مختلف دفعات کے تحت نوٹس جاری، 2 اپریل کو پوچھ تاچھ کے لیے حاضر ہونے کی ہدایت

لکھنؤ: 26۔مارچ
(سحرنیوزڈاٹ کام/سوشل میڈیا ڈیسک)

ماہ فروری میں ریاست اتر پردیش کے ضلع امیٹھی کے ساکن کسان محمد عارف (30سالہ) اور ان کے پرندہ دوست سارس کے ویڈیوز نےسوشل میڈیا کےعلاوہ ریاستی، قومی، بین الاقوامی نامور میڈیا اداروں میں بھی دھوم مچائی تھی۔اور اس کے ویڈیوز نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کروڑوں لوگوں نے دیکھے تھے۔

کئی نیوز چینلوں نےعارف اور سارس کی اس عجیب و غریب دوستی پر کئی نیوزاسٹوریز بنائی تھیں۔انسٹاگرام اور فیس بک پر محمد عارف کے اکاؤنٹس پر ان کے ویڈیوز کئی ملین لوگوں نے دیکھے۔جس کسی نے یہ ویڈیوز دیکھے سب نے تعریف کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا۔

امیٹھی ضلع کے گوری گنج تحصیل،جامو بلاک کےتحت موجود”منڈکا گاؤں”کے ساکن محمد عارف نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایک سال قبل ان کے کھیت میں انہوں نے اس سارس کو زخمی حالت میں پایاتھا جس کا ایک پیر ٹوٹا ہوا تھا۔انہوں نے اسے اپنے گھر لاکر اس کا علاج ومعالجہ کیا ،اس کے زخموں کےمندمل ہونے تک اس کی دیکھ بھال کی تھی۔جسکے بعدمحمد عارف اور ان کے افراد خاندان نے بتایا تھا کہ صحتمند ہونے کے بعد سارس اڑ کر واپس نہیں گیا جیسا کہ ان کو یقین تھا اور اس وقت سے ان کےساتھ ان کے مکان میں رہنے لگا تھا۔

تاہم محمد عارف اور سارس کے لیے یہ خوشی اس وقت راس نہیں آئی جب21 مارچ کو محکمہ جنگلات کے عہدیدار ان کے مکان پہنچ گئے اور سارس کو ان کے پاس سے یہ کہتے ہوئے حاصل کرلیا کہ سارس پالتو پرندہ نہیں ہے۔اس طرح اس کا انسانوں کے درمیان رہنا ٹھیک نہیں، اسے قدرتی ماحول میں ہی رکھا جانا چاہئے۔

سارس کو لے جانےکے بعد سے عارف تنہا ہوگئے اورحکومت سے اپنے ویڈیوز کے ذریعہ فریاد کرتےرہےکہ ان کا سارس انہیں دے دیا جائے جس کی انہوں نے اپنے بچہ کی طرح پرورش کی ہے۔عارف نے یہ بھی کہا کہ سارس ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔لیکن ان کی فریاد نظرانداز کر دی گئی ۔یاد رہے کہ سارس ریاست اتر پردیش کا ریاستی پرندہ ہے۔جس کا شمار سب سے زیادہ اونچائی پر اڑنے والے پرندہ میں ہوتا ہے۔

بعد ازاں آج گوری گنج،امیٹھی کےمحکمہ جنگلات کے عہدیداروں کی جانب سےمحمد عارف کےخلاف جنگلی جانوروں اور پرندوں سےمتعلق 1972 کےقوانین کی پانچ مختلف دفعات کے تحت کیس درج کرتےہوئے انہیں ایک نوٹس جاری کی ہے اور انہیں ہدایت دی گئی ہےکہ وہ پوچھ تاچھ کےلیے 2 اپریل کو حاضر ہوں۔سی ایف او رنویرمشرا کی جانب سے درج کردہ 14 /2022-2023کےتحت عارف کےخلاف تحفظ جنلگی جانوران قانون کی دفعات 2، 9، 29 ، 51 اور 52 کی خلاف ورزی کے الزامات پرمشتمل کیس درج کیا گیا ہے۔2 اپریل کو محمدعارف سے محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کی پوچھ تاچھ ہوگی اس کے بعد کیا ہوگا کہنا مشکل ہے۔!!

عارف نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر تصدیق کی ہےکہ ان کےخلاف محکمہ جنگلات کی جانب سے کیس درج کیا گیا ہے اور پوچھ تاچھ کے لیے انہیں طلب کیا گیا ہے۔

 

بتایاجاتا ہےکہ کانپور زو میں دیگر پرندوں کےساتھ چھوڑنےسے قبل اس سارس کو پندرہ دنوں کے کے لیے کورنٹئین کیا گیا ہے۔کیونکہ وہ انسانوں کے درمیان رہ کر آیا ہے۔

دوسری جانب جس وقت سارس کو عارف کے مکان سے لے جایا گیا تھا اس وقت میڈیا میں یہ خبریں عام ہوئی تھیں کہ سارس محکمہ جنگلات کے قبضہ سے اُڑ چکا ہے۔؟ اس کے بعد عارف کی پریشانی مزید بڑھ گئی وہ گاؤں گاؤں گھم کر سارس کو تلاش کرتے رہے۔لیکن نہیں ملا۔وہیں محکمہ جنگلات کے عہدیداروں نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سارس کہیں نہیں گیا ہے ان کے ہی قبضہ میں ہے اور اسے سمستی پور کے علاقے میں چھوڑا گیا ہے۔!!

عارف کے قبضہ سے سارس حاصل کرتے وقت ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) امیٹھی ضلع دیو ناتھ شاہ نے کہا تھا کہ سارس کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کےتحت تحفظ حاصل ہے اور اس لیے اسے قید میں نہیں رکھاجاسکتا۔وہیں لکھنؤ کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر روی سنگھ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اس کی حفاظت اور پرورش کے لیے ایک نظام موجود ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آپ اس کے پروں کو چھو نہیں سکتے اور نہ ہی اسے اپنے قریب رکھ سکتے ہیں۔انسانوں کو سارس کو چھونے کی اجازت نہیں ہے۔سارس کوجنگل میں ہی رہنے کی اجازت ہونی چاہئے اور اسے پالتو نہیں بنایا جاسکتا اور انسانوں کے ساتھ رابطے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ ان پرندوں کو کیڑے، مکوڑوں اور مچھلیوں کی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

گذشتہ ایک سال سےسارس اور عارف ایک ساتھ رہتےآئے ہیں اور ان کی جوڑی گاؤں میں جئے اور ویرو کےنام سےمشہور ہوگئی تھی لیکن ماہ فروری سے سارس اور عارف کی دوستی کے قصے،ان دونوں کے درمیان کی قربت،ایک ہی برتن میں دونوں کا کھانا اور ایک دوسرے سے بے انتہا لگاؤ کے کئی ویڈیوز میڈیا اور سوشل میڈیا پر ملک اور بیرون ملک مقبولیت حاصل کرنا شروع ہوئےتھے۔سوشل میڈیا صارفین بھی عارف کےجذبہ انسانی اور سارس کی وفاداری کی خوب داد دیتےرہے۔عارف اس سارس کومیرا بچہ کہہ کرمخاطب کیاکرتےتھے۔جب عارف اور سارس کی اس حیرت انگیز دوستی کے قصے عام ہوئے تو عوام اور میڈیا کی بڑی تعداد عارف کے مکان واقع منڈکا گاؤں پہنچنے لگی تھی۔

اسی دؤران 5 مارچ کوگاؤں پہنچ کر سابق چیف منسٹر اتر پردیش و سماج وادی پارٹی رہنما اکھلیش یادونے عارف اور سارس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی بی سی پر ان کی رپورٹ دیکھ کر ہی وہ یہاں آئے ہیں۔انہوں نے محمد عارف کے جذبہ انسانیت کی جم کر ستائش کی تھی اورخوشی کا اظہار کیا تھا۔اور وہ کچھ وقفہ تک سارس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔

22 مارچ کو فیس بک کے اپنے مصدقہ اکاؤنٹ پرجنرل سیکریٹری یوپی کانگریس پرینکا گاندھی واڈرانے عارف اور سارس کے ایک ہی پلیٹ میں  کھانےوالی تصویر کے ساتھ ہندی میں لکھا تھا کہ” امیٹھی کے رہنے والے عارف اور سارس کی دوستی جئے ویرو جیسی تھی۔ساتھ رہنا،اکٹھے کھانا ، اکٹھے آنا جانا،ان کی دوستی انسانوں اور جانداروں کی دوستی کی مثال ہے۔عارف نے اپنے پیارے سارس کو خاندان کے ایک فرد کی طرح پالا،اس کی دیکھ بھال کی،اس سے پیار کیا۔ایسا کرکے انہوں نے جانوروں اور پرندوں کے تئیں انسانی فرض شناسی کی مثال قائم کی ہےجو کہ قابل تحسین ہے۔

پرینکا گاندھی واڈرا نے اپنے فیس بک پوسٹ میں مزید لکھا کہ”حال ہی میں ‘The Elephant Whispers’ کو آسکر ایوارڈ ملا، جس کی کہانی بھی ایک ہاتھی اور انسان کی حساس کہانی ہے۔یہ کہانیاں ہمیں جذباتی بناتی ہیں کیونکہ انسانی زندگی اورماحول میں پائی جانےوالی تمام علامتیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ہمیں اپنے جانوروں،پرندوں،درختوں،جنگلوں،پہاڑوں،گلیشئرز، سمندروں اور دریاؤں کو بچانا ہے اور ان سب کی حفاظت کرنی ہے۔

صرف ایک خوبصورت اور صحت مند ماحول ہی ایک خوبصورت زندگی دے سکتا ہے اور انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان محبت کی ایسی کہانیاں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔حکومتوں کابھی کام ہے کہ وہ ایسی کہانیوں سےتحریک لے کرجنگلی حیات اور انسانوں کے پیار بھرے رشتے سے ہمدردی کے موتی چنیں۔”

وہیں سابق چیف منسٹر اتر پردیش و سماج وادی پارٹی رہنما اکھلیش یادو نے پریس کانفرنس میں الزام عائد کیاتھا کہ عارف سے سارس اس لیے چھین لیا گیا کیونکہ وہ ان سے ملنے اور مبارکباد دینے چلے گئے تھے۔اکھلیش یادو نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا بہت کم دیکھا جاتا ہے جب کوئی سارس انسان سے ایسی دوستی کرتا ہے،یہ تو ریسرچ کا موضوع ہے۔انہوں نے کہا کہ سارس کا علاج اس کی خدمت اور اس کے بعد ان دونوں کی دوستی مثالی تھی۔اکھلیش یادو نے سوال کیا تھا کہ کیا یہی دستور ہے؟

اسی دوران کل سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو نے دو ویڈیوز ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ” چڑیا گھر میں بند پرندہ…یہ کیسی آزادی ہے؟ پریس کانفرنس میں بھی اکھلیش یادو نے عارف کے خلاف کیس درج کیے جانے کی مذمت کی ہے۔

 

عارف اور سارس سے متعلق مکمل تفصیلات اور ویڈیوز اس لنک پر "

سابق چیف منسٹر اتر پردیش اکھلیش یادو عارف اور سارس کے گاؤں پہنچ گئے، دونوں کی دوستی کی زبردست ستائش

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے