گجرات میں بی جے پی نے زبردست اکثریت کے ساتھ اپنا قبضہ برقرار رکھا
تاہم ہماچل پردیش میں کانگریس کے ہاتھوں اقتدار سے ہوئی محروم
نئی دہلی: 08۔ڈسمبر(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)
گجرات اسمبلی انتخابات میں برسر اقتداربھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) نے مزید زیادہ سیٹوں کےساتھ گجرات پرحسب توقع اپنا 27 سالہ قبضہ برقرار رکھا ہے۔جہاں اس نے 156 سیٹوں پرتاریخی کامیابی حاصل کی لیکن ہماچل پردیش پر اپنا قبضہ برقراررکھنے میں ناکام ہوگئی اورکانگریس پارٹی نے ہماچل پردیش کو زائدنشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اس ریاست کو بی جے پی سے چھین لیا۔وہیں گجرات میں کانگریس پارٹی خاطر خواہ اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی گزشتہ کی بہ نسبت اس کی سیٹوں میں زبردست گراوٹ ریکارڈ ہوئی ہے۔
گجرات میں کامیابی کےبعد بی جے پی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بعدملک کی ایسی دوسری سیاسی واحد پارٹی بن گئی ہے جس نے مغربی بنگال میں مسلسل سات اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے 1977 تا 2011ء جملہ 34 سال حکومت کی تھی۔
گجرات 27 سال سے بی جے پی کامضبوط قلعہ رہا ہے۔جہاں 182 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی نے پہلی مرتبہ 156 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے بتادیا ہے کہ گجرات میں تو وہ ناقابل تسخیر سیاسی جماعت ہے۔جبکہ اپوزیشن کانگریس،عام آدمی پارٹی کےعلاوہ سوشل میڈیا پر گجرات کے عوام کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ گجرات میں بی جے پی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جہاں کوویڈ وبا کے دوران علاج کی فراہمی،بلقیس بانو کے 11 قاتلوں کی رہائی کے علاوہ الیکشن سے قبل ماہ اکتوبر میں گجرات کے موربی پل حادثہ میں 140 سے زائد افراد کی ہلاکت کے لیے بی جے پی حکومت ذمہ دار ہے۔تاہم پھر بھی گجرات کے رائے دہندگان کی اولین پسند بی جے پی ہی رہی اور انہوں نے پہلے سے زیادہ سیٹیں بی جے پی کو بطور انعام دیتے ہوئے،گجرات ماڈل کو یقین میں بدل دیا۔!!
گجرات میں بی جے پی نے 156 اسمبلی سیٹوں پر تاریخی کامیابی درج کروائی ہے۔وہیں گجرات اسمبلی میں کانگریس اب صرف 17 سیٹوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔اسی طرح پہلی مرتبہ گجرات اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کرنے والی عام آدمی پارٹی (عآپ) نے پانچ سیٹوں پر کامیابی کے ذریعہ اپنا کھاتہ کھولا ہے اور دیگر 67 سیٹوں پراس پارٹی کےامیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں۔تاہم گجرات میں ووٹوں کی تقسیم، کانگریس کو نقصان کے بعد اب عام آدمی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہوا ہے۔وہیں کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کو گجرات میں ناکامی ہاتھ لگی ہے۔
یاد رہےکہ 182 رکنی گجرات اسمبلی میں 1995 سے بی جے پی اپنی کامیابی درج کروارہی ہے۔2017 میں منعقدہ انتخابات میں بی جے پی کو 99 سیٹ حاصل ہوئی تھیں،وہیں کانگریس نے 77 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتےہوئے بی جے پی کو سخت چیلنج کیا تھا جبکہ اس کی اتحادی بھارتیہ ٹرائبل پارٹی کو دہ، نیشنلٹ کا نگریس پارٹی کو ایک اور تین سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔
ایک طویل عرصہ تک گجرات پرحکومت کرنےوالی کانگریس پارٹی نے 1985کے انتخابات میں مادھوسنگھ سولنکی کی قیادت میں 149 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی درج کروائی تھی۔اب 2022کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے گجرات میں اس ریکارڈ کوتوڑتے ہوئے 156سیٹوں پر کامیابی درج کروائی ہے۔2002 کےاسمبلی انتخابات میں اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کی قیادت میں 2002 میں ہی گودھرا ٹرین واقعہ اور اس کے بعد ہونےوالی مسلم کش فسادات کےبعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی نے 127 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتےہوئے گجرات میں کانگریس کی واپسی کی امیدوں اور راستہ کو بند کر دیا تھا۔جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نے گجرات پر 12 سال 227 دن تک حکومت کی بعدازاں وہ 2014 میں ملک کےوزیراعظم بن گئے۔پھر دوبارہ 2019 میں وہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔
دوسری جانب پہاڑی،قدرتی خوبصورتی اور پھلوں بالخصوص سیب کی پیداوار کی دولت سےمالا مال ریاست ہماچل پردیش میں کانگریس نےبی جے پی سے اقتدار چھین لیا ہے۔ریاست کی جملہ 68 اسمبلی سیٹوں میں سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے درکار 35 سیٹوں کا ہندسہ پار کرتے ہوئے کانگریس نے ہماچل پردیش میں 40 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتےہوئے پیغام دیا ہے کہ وہ اتنی کمزور نہیں ہوئی ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔کانگریس تنہا چھتیس گڑھ اور راجستھان کے بعد اب تیسری ریاست ہماچل پردیش کا اقتدار سنبھالنے جارہی ہے۔
وہیں ہماچل پردیش واحد ریاست ہے جہاں 37 سال سے ہر پانچ سال میں اپنے ووٹ کی طاقت سے حکومت بدلنے کا ایک ریکارڈ رکھتی ہے۔چاہے کسی کی بھی حکومت ہو۔مذہبی یا طبقہ واری جراثیم سے یہ ریاست پاک مانی جاتی ہے اور برسر اقتدار حکومتوں کی کارکردگی کو فوقیت دیتی آئی ہے۔جو کہ ووٹ دینے کے جمہوری طریقہ کا درست استعمال مانا جاسکتا ہے۔
جبکہ ملک اورمختلف ریاستوں میں برسراقتدار اور گجرات میں زبردست کامیابی ککا مظاہرہ کرنے والی بی جے پی کو ہماچل پردیش میں 25 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے جسے 2017 کے انتخابات کے مقابلہ میں 19 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔تین آزاد امیدواربھی کامیاب ہوئے ہیں۔
دہلی میونسپل کارپوریشن کےانتخابات میں بی جے پی سے 15 سالہ اقتدارچھین لینے،جاریہ سال ہی کانگریس کوپنجاب سے اکھاڑ پھینکنے کا ریکارڈ رکھنے اور گجرات انتخابات میں غیر بی جے پی ووٹوں پر اپنی جھاڑو پھیرنے والی،وزیراعلیٰ دہلی اروند کجر یوال کی عام آدمی پارٹی ہما چل پردیش سے دور ہی رہی۔
اپ ڈیٹ :
کانگریس کے مبصرین،چھتیس گڑھ کے وزیراعلی بھوپیش بگھیل اور ہریانہ کےسابق وزیراعلی بھوپندر سنگھ ہڈا اور ہماچل پردیش اے آئی سی سی انچارج راجیو شکلا نے آج 9 ڈسمبر کو ایک ہوٹل میں ریاستی کانگریس کی سربراہ پرتیبھا سنگھ سے ملاقات کی۔کانگریس کی رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر اعلی ویربھدرسنگھ کی اہلیہ پرتیبھا سنگھ نے اشارہ دیا ہےکہ وہ وزیراعلیٰ ہماچل پردیش کےعہدے کی دوڑ میں شامل ہیں،یہ بات ان کے فرزند نے بھی کی ہے۔