بی بی سی سیریز، مودی اور گجرات کے فسادات، یوٹیوب اور ٹوئٹر پر ڈاکیومینٹری کی پوسٹنگ پرحکومت کی پابندی

قومی خبریں مضامین و رپورٹس

بی بی سی سیریز ، مودی اور گجرات کے فسادات
یوٹیوب اور ٹوئٹر پر ڈاکیومینٹری کی پوسٹنگ پر حکومت کی پابندی

شکیل رشید 
(ایڈیٹر،ممبئی اردو نیوز)

گجرات کے فسادات پی ایم مودی کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں!
اِن دنوں وہ عالمی سطح پر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ہوا یہ ہے کہ گجرات فسادات میں مودی کے ” کردار ” کی چھان بین کر کے برطانوی نشریاتی ادارے” برٹش براڈ کاسٹنگ”( بی بی سی ) نے دو پارٹ کی ایک سیریز "انڈیا : دی مودی کوئشچن” کے نام سے بنائی ہے،حالانکہ ابھی یہ سیریز ہندوستان میں ریلیز نہیں ہوئی ہے،اور یقیناً یہ ریلیز ہو بھی نہیں سکے گی،مگر اس سیریز کی حکومتِ ہند نے سخت الفاظ میں مذمت شروع کر دی ہے اور مذمت کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حکومت کےنمائندے تو اعتراض اور نکتہ چینی کرہی رہے ہیں،بھکتوں و گودی میڈیا کی طرف سےبھی اس سیریز کے خلاف مسلسل ایک ہنگامہ شروع ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ،بی بی سی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے دو بار کےمنتخب وزیراعظم کے خلاف دروغ گوئی سے کام لیا ہے،ان کی ساکھ کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،اور جھوٹ پھیلایا ہے۔

پہلے یہ جان لیں کہ اس سیریز میں ہے کیا؟چونکہ یہ سیریزہندوستان میں ریلیز نہیں ہوئی ہے،اور نہ ہی بی بی سی کی سائٹ پر یہ ہندوستانی ناظرین کے لیے کھل رہی ہے،اس لیے بی بی سی کے اور بیرونی ذرائع سے اس کے بارے میں جو کچھ سامنے آسکا ہے، اس کے مطابق اس میں گجرات 2002ء کے مسلم کش فسادات کی ” تفتیش ” کی گئی ہے۔

 تفتیش کا ایک پہلو یہ ہے کہ کیا واقعی نریندر مودی،جو اُس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے،فسادات کو روکنے اور فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے تھے،اور اگر ناکام رہے تھے تو کیوں ناکام رہے تھے؟

بی بی سی نے اس سیریز کےتعلق سےلکھا ہے کہ”نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہیں،وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہیں دو بار ہندوستان کا وزیراعظم منتخب کیا گیا اور انہیں اپنی نسل کے سب سےطاقتور سیاست داں کےطور پر دیکھا جاتا ہے۔انہیں ایشیا میں چینی تسلط کے خلاف مضبوط دیوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ دونوں انہیں اپنا اہم اتحادی مانتے ہیں۔مگر نریندر مودی کی حکومت، اس ملک کی مسلم آبادی کے تعلق سےاپنے رویّے کے سبب،مسلسل الزامات کے گھیرے میں رہی ہے۔اس سیریز میں ان الزامات کی حقیقت کی تفتیش کی گئی ہے،اور مودی کی گذری ہوئی کہانی اور ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کےتعلق سےان کی سیاست پر اٹھنے والے سوالوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس پارٹ ( پہلا حصہ) میں مودی کےسیاست میں اٹھائے گئے ابتدائی قدم،بشمول دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ( آرایس ایس ) سے لےکر بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) میں عروج اور ان کے صوبۂ گجرات کا،جہاں فسادات پر ان کاردعمل تنازعہ کاباعث بنا ہے، وزیراعلیٰ بننا،شامل ہے۔” یہ پارٹ 17 جنوری کو ریلیز ہو چکاہے،دوسرا پارٹ 24 جنوری کو ریلیز ہوگا۔

دوسرے پارٹ میں 2019 سے لے کر اب تک مودی سرکار کا،مسلمانوں کےساتھ کیا رویہ رہا ہے،اس کا جائزہ لیا جائے گا۔مطلب یہ کہ اس میں کشمیر سے آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے،شہریت کے متنازعہ قانون،اور مسلمانوں پر پُرتشدد حملوں کی چھان بین کی جائے گی۔بی بی سی کا کہنا ہےکہ مودی حکومت بار بار یہ دعویٰ کرتی چلی آئی ہےکہ اس کی پالیسیاں مسلم مخالف نہیں ہیں،لیکن ان پالیسیوں کی،عالمی سطح کی حقوق انسانی کی تنظیمیں،جیسے کہ”ایمنسٹی انٹرنیشنل "،سخت تنقید کرتی رہی ہیں۔اب”ایمنسٹی انٹرنیشنل”نے ہندوستان میں،حکومتِ ہند کی طرف سے اپنا بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جانے کے بعد ، دفتر بند کر دیا ہے۔حکومت ہند نے اس پر مالی بےضابطگیوں کا الزام عائد کیا ہے،جس کی اس نے تردید کی ہے۔

بی بی سی نے یہ دو حصوں کی سیریز برطانوی دفترِ خارجہ کی ایک ایسی غیرشائع شدہ رپورٹ کی بنیاد پر بنائی ہے،جس میں ذرائع کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیاہے کہ گجرات میں 2002 میں پُرتشدد ماحول پیدا کیا گیا اور مودی بذات خود اس کے ذمہ دار تھے۔یہ رپورٹ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا کی ہدایت پر مرتب کی گئی تھی۔

بی بی سی کی اطلاع کے مطابق،اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ” تشدد اطلاع سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے کا تھا” اور "فسادات کا مقصد ہندو علاقوں کو مسلمانوں سے پاک کرنا تھا۔‘‘ بی بی سی کی اطلاع کے مطابق سیریز کے پہلے پارٹ میں جیک اسڑا کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ”یہ بہت سنگین دعوے تھے کہ پولیس پر روک لگانے اور ہندو انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں مسٹر مودی نے ایک فعال کردار ادا کیا تھا۔

یہ خاص طور پر سیاسی مداخلت کی ایک نمایاں مثال تھی تاکہ پولیس کو،ہندوؤں اور مسلمانوں کے تحفظ کے،اپنے فرائض کی ادائیگی سے روکا جا سکے ۔” جب جیک اسٹرا سے یہ دریافت کیا گیا کہ برطانوی حکومت اس وقت کیا کارروائی کر سکتی تھی،تو انہوں نے کہا،”محدود چارہ تھے، ہم بھارت کے ساتھ کبھی بھی سفارتی تعلقات توڑنے والے نہیں تھے،لیکن ظاہر ہے کہ یہ ان کی ( مسٹر مودی) کی ساکھ پر ایک داغ ہے۔”

چونکہ گجرات کے 2002 کے فسادات ہمیشہ پی ایم مودی کے لیے ایک حساس موضوع رہے ہیں،اس لیے ان کا ذکر جب بھی کیا جاتا ہے،اور مودی پر انگلی اٹھائی جاتی ہے،تو ساری سرکاری مشنری پی ایم کے دفاع میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے،اس لیے بی بی سی کی سیریز کے خلاف بھی زبردست ردعمل دیکھنے کو نظر آ رہا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی اس سیریز کو” پروپگنڈا ” قرار دے چکے ہیں،ان کا کہناہے کہ” یہ سیریز معروضیت سے عاری ہے۔”ارندم باگچی نے سوال اٹھایاہے کہ”اب اتنے دنوں کے بعد اس سیریز کی ضرورت کیوں پیش آگئی،اس کے پسِ پشت کیا ایجنڈا ہے۔”ان کاکہنا ہے کہ”یہ پروپگنڈائی چیز ہے،پہلے ہی اس بیانیہ کو رد کیا جاچکا ہے،اب دوبارہ اسے پیش کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔اس سیریز میں جانبداری،عدمِ معروضیت اور کالونیل مائنڈ سیٹ ( نوآبادیاتی ذہنیت) صاف صاف عیاں ہے۔”

چونکہ سیریز کی بنیاد برطانوی حکومت کی ایک غیر شائع شدہ رپورٹ ہے،اس لیے حکومتِ ہند کی تنقید کی زد میں برطانیہ کے وزیراعظم رشی سنک بھی آئےہیں،وہی رشی سنک جن کےبرطانیہ کا وزیراعظم بننے پربھکتوں نےیوں خوشیاں منائی تھیں جیسےکہ برطانیہ پرہندوستان کا قبضہ ہوگیاہے۔

جمعرات (19 جنوری) کو برطانوی وزیر اعظم رشی سنک سے ایک پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ عمران حسین نے پارلیمنٹ میں برطانوی وزارت خارجہ کی جیک اسٹرا کی رپورٹ کے تعلق سے سوال بھی اٹھایا تھا،انھوں نے پوچھا کہ کیا وہ اس رپورٹ سےاتفاق کرتےہیں کہ مسٹر مودی تشدد کے براہ راست ذمہ دار ہیں،نیز دفتر خارجہ کو اس سنگین نسلی تطہیر میں ان کے ملوث ہونے کے بارے میں مزید کیا معلوم تھا۔؟

مسٹر سنک نے کہا کہ” ہم کہیں بھی ظلم برداشت نہیں کرتے،لیکن مسٹر مودی کا جو کردار پیش کیا گیا ہے،میں اس سےمتفق نہیں ہوں۔” لیکن رشی سنک نے بی بی سی کی سیریز پر کوئی تبصرہ نہیں کیا،حالانکہ ان پر یہ دباؤ ہے کہ وہ بی بی سی پر اس سیریز کے خلاف دباؤ بنائیں۔لیکن برطانیہ اور بھارت میں” صحافت کی آزادی” کےمعیارات بہت ہی الگ الگ ہیں،وہاں” گودی میڈیا”جیسا کوئی تصور نہیں ہے، میڈیا الگ الگ نظریے رکھنے والی پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں پوری طرح آزاد ہے،اور کم از کم انسانی حقوق کے معاملات میں وہ غیرجانبداری برتنے کی کوشش کرتا ہے۔

اگر بات گجرات فسادات کی کی جائےتو یہ الزام اب تک لگتا چلا آرہا ہے کہ نریندر مودی نے فسادیوں کو”چھوٹ”دی اور کسی کےبھی خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دی،نیز جن کے خلاف کارروائی ہوئی بعد میں انھیں بھی بچا لیا گیا،جیسے کہ بلقیس بانو کے گیارہ مجرمین۔!!

سوال یہ ہے کہ گجرات فسادات کا بیانیہ جھوٹ کیسے ہے؟ کیا 2002 میں فسادات نہیں ہوئے تھے؟ کیا فسادات میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے نہیں گیے تھے؟ کیا بیسٹ بیکری نہیں جلی تھی؟ کیا بلقیس بانو کا ریپ اور اس کے اہلِ خانہ کا قتل نہیں کیا گیا تھا؟ کیا نروڈ گام اور نروڈہ پاٹیا میں قتلِ عام نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیا اس وقت کے وزیراعلیٰ پر ان ہی کے افسران نے جانبداری کا الزام نہیں لگایا تھا؟

میں یہاں اپنی طرف سےکوئی بات کہنے کی کوشش نہیں کروں گا،دو ایسے پولیس افسران کی،جنھوں نےگجرات کے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،گواہیاں پیش کروں گا۔آئی پی ایس آر بی سری کمار اِن دنوں جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے گجرات فسادات کی حقیقت اپنی ایک کتاب ” پسِ پردہ گجرات”میں پیش کی ہے۔فسادات کے دوران وہ محکمۂ خفیہ کے سربراہ تھے،ان کا عہدہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کا عہدہ تھا۔

کتاب کے پہلے باب”2002گجرات فساد کاپس منظر” میں آر بی سری کمار نے فسادات کی منصوبہ بندی کی تفصیلات پیش کی ہیں،مثلاً وہ بتاتےہیں کہ کیسے مشترکہ آبادیوں میں ہندوؤں کے مکانات اور دیگر املاک کی شناخت کے لیے ان پر کسی دیوی دیوتا کی تصویر بنا دی گئی یا مورتی نصب کر دی گئی یا ” اوم ” اور ” سواستک ” کا نشان بنا دیا گیا تاکہ سنگھ پریوار کے فسادی آسانی سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا سکیں۔

دوسرے باب "مصیبت اور مایوسی کادور” میں وہ گودھرا ٹرین سانحہ اور فسادات کاتفصیلی ذکر کرتے ہیں۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ 28 فروری کو وہ محافظ دستے کے ساتھ احمدآباد کی اپنی رہائش گاہ سے گاندھی نگر اپنے دفتر جا رہے تھے تب مسلح ہجوم مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا اور پولیس غیر فعال اورخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔اس باب کا ایک اہم حصہ ڈی جی پی کے چکرورتی سے ملاقات کی تفصیل پر مبنی ہے۔

وہ لکھتے ہیں :” ڈی جی پی مسٹر چکرورتی نے یہ ذکر بھی کیاکہ گودھرا سے واپس لوٹ کر 27 فروری کی دیر شام وزیر اعلیٰ(نریندرمودی)نے اپنی رہائش گاہ پر اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ طلب کی جس میں انہوں نے کہا کہ عام طور سے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں اور مسلمانوں کے خلاف برابر کارروائی کرتی ہے،اب یہ نہیں چلے گا ” ہندوؤں کوغصہ نکالنے کاموقع دیا جائے۔”

آر بی سری کمار فسادات روکنے،مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے اور مجرموں و فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنے تدارکی تدابیر وتجاویز کابھی ذکر کرتے ہیں جن پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔مذکورہ سطروں میں صاف صاف یہ لکھا ہےکہ فسادیوں کو چھوٹ دینے کے لیے پولیس کو کارروائی سے روکا گیا،اور یہ حکومت کی ایما پر کیا گیا۔

ایک دوسرے آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ،جو اِن دنوں جیل میں ہیں(ہر وہ پولیس افسر جو فسادات کے دوران اپنے فرائض ایمانداری سےانجام دے رہاتھا یا تو جیل میں ہے یا ہراساں کیاجا رہا ہے) نے باقاعدہ” حلف نامہ” دیاہے کہ وہ اس میٹنگ میں،جس میں پولیس والوں کو فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے روکا گیا ، موجود تھے۔

سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے ایک”حلف نامہ”پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کے گجرات کےوزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات 2002 کے فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔

” حلف نامہ” میں بھٹ نے تحریر کیاتھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی،جن میں اعلیٰ پولس اہلکاربھی شامل تھے،ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ” حکم‘ دیا تھا کہ” ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے،یعنی انہیں تشدد اور ماردھاڑ سے نہ رو کا جائے۔ یہ ’ حکم ‘ ایک طرح سے تمام پولس والوں کیلئے ایک طرح کا عندیہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں،اقلیتی فرقے یعنی مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں اسے نکالنے دیں۔

سنجیو بھٹ نے اپنے”حلف نامہ” میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 فروری 2002ء کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی۔

مذکورہ دونوں اعلیٰ پولیس افسران کی شہادتیں گجرات کا سچ سامنے لانے کے لیے کافی ہیں۔یہ شہادتیں اور ضعیفہ ذکیہ جعفری کا الزام کہ اس کے شوہر احسان جعفری کے قتل میں ساری حکومت شریک تھی،گجرات فسادات کے سچ کو کبھی دھندلا نہیں ہونے دیں گی۔حالانکہ عدالت نے گجرات فسادات کی شنوائی اب ختم کردی ہے،لیکن بی بی سی کی سیریز گجرات فسادات کی خون آلودہ تاریخ کوپھر سے سامنے لا سکتی ہے ویسے بھی تاریخ کو چاہے جس قدرمسخ کرنے کی کوشش کی جائے،تاریخ نہ مسخ ہوسکتی ہے اور نہ مَرسکتی ہے۔دوسری جانب بی ی سی کی اس سیریز کے پہلے حصہ کی لنکس اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد ملک میں ایک بحث شروع ہوگئی ہے۔

دوسری جانب انڈین ایکسپریس اور این ڈی ٹی وی کےعلاوہ دیگر کی رپورٹس کےمطابق مرکزی حکومت نےبی بی سی کی اس ڈاکیومنٹری کو یوٹیوب چینلوں پر اپ لوڈ کرنے اور اس کے ویڈیوز اور اس سے متعلق پوسٹنگس پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔اور ساتھ ہی حکم دیا گیا ہے کہ اب تک جو بھی پوسٹ ہوئے ہیں انہیں ڈیلیٹ کیا جائے۔عہدیداروں کےحوالے سے ان میڈیا ہاؤزس نے کہا ہے کہ یہ دستاویزی فلم ” ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے”۔اور یہ غیرممالک کے ساتھ ملک کے دوستانہ تعلقات اور ملک کے اندر امن عامہ پر منفی اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کےمطابق حکام نے بتایا کہ وزارت اطلاعات و نشریات نے جمعہ کو یوٹیوب کو ہدایات جاری کیں کہ وہ متعدد ویڈیوز کو بلاک کرے جنہوں نےدو حصوں پرمشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط شائع کی تھی اور ساتھ ہی ٹوئٹر کو حکم دیا ہےکہ وہ 50 سے زیادہ ٹویٹس کو بلاک کردے جن میں اس ایپی سوڈ کے لنکس ہیں۔عہدیداروں نے کہا کہ یوٹیوب اور ٹوئٹر نے وزارت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کی ہے جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021ء کے تحت ہنگامی اختیارات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

حکومت کی ہدایات پر کل ہفتہ کو اپوزیشن کی جانب سےشدید ردعمل کا اظہار کیا گیا اور رہنماؤں نے اسے”سنسر شپ”قرار دیا۔ترنمول کانگریس پارٹی (ٹی ایم سی) کےایم پی ڈیرک اوبرائن نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم پر ان کی جانب سے ایک ٹوئٹ کیا گیا تھا، جسے ” لاکھوں ویوز ملے ” ٹویٹر نے ہٹا دیا ہے۔

کانگریس کے ایم پی وپارٹی کے کمیونیکیشن انچارج جے رام رمیش نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا،”وزیراعظم اور ان کےڈرم بجانے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان پر بی بی سی کی نئی دستاویزی فلم بہتان ہے۔سنسر شپ لگا دی گئی ہے۔پھر کیوں وزیر اعظم واجپائی 2002 میں ان کا اخراج چاہتے تھے،صرف اڈوانی کے استعفیٰ کی دھمکی پر اصرار نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا؟ واجپائی نے انہیں اپنا راج دھرم کیوں یاد دلایا؟

 

بشکریہ : ممبئی اردو نیوز ، اتوار 22 جنوری 2023ء  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے