ملک کی تقسیم ناقابل تصور المیہ : پروفیسر عین الحسن
اردو ادب میں تقسیم ہند کی عکاسی پر مانو میں سمینار کا انعقاد
حیدرآباد:11۔اگست(پریس نوٹ/سحرنیوزڈاٹ کام)
بات ملک کی تقسیم کی نہیں تھی بلکہ ایک خاندان کی تقسیم کی تھی۔جو کہ ایک ناقابل تصور المیہ ہے۔ایک ہی خاندان میں آدھے کہہ رہے تھے ملک چھوڑ کر جانا چاہئے تو آدھے لوگوں کا ماننا تھا کہ آباءو اجداد کی زمین چھوڑ کر کیسے جائیں؟بڑی کشمکش کا دور تھا اور جب اکثر لوگ گئے تو اچھی خبریں نہیں آئیں۔ملک کی تقسیم یقینی طور پر ہولناک تھی۔اس کے بیان کرنے والے یا تو گزر گئے جو ہیں اب وہ بہتر طور پر نہیں بتا سکتے۔ان خیالات کا اظہار آج پروفیسرسید عین الحسن،وائس چانسلر،مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی نےایک روزہ قومی سمینار بعنوان” اردو ادب میں تقسیم کی عکاسی“ کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
شعبہ سماجیات،مانو اور اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار آرٹس(جنپد ڈویژن۔وزارتِ ثقافت،حکومت ہند)کے اشتراک سے”تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگار دن“ اور ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر جاری آزادی کا امرت مہوتسو کے تحت اس سمینار کا انعقاد کیا گیا۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ اردو ادب میں تقسیم ہند کی بیشتر عکاسی مختصر کہانیوں اور ناولوں میں کی گئی ہے۔ملک کی تقسیم کے حالات شعر و نظم میں بھی بیان کیے گئے۔تقسیم کا درد،اردو ادب کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔الگ الگ علاقوں میں الگ الگ طرح کی ثقافت و تہذیب ہے۔
قبل ازیں پروفیسر پی ایچ محمد،صدر شعبہ و کنوینر نے سمینار کا مختصر تعارف پیش کیا اور ڈاکٹر محمد احتشام اختر، شریک کنوینر سیمینار نے مہمانوں کا استقبال کیا۔پروفیسر محمد نسیم الدین فریس،سابق ڈین،اسکول آف السنہ،لسانیات و ہندوستانیات نے کرشن چندر کے حوالے سے تقسیم ہند پر روشنی ڈالی۔پروفیسر شگفتہ شاہین،صدر شعبہ انگریزی نے”قرة العین حیدر کی تخلیقات میں تقسیم کی عکاسی“ پر مقالہ پیش کیا۔
سمینار کے دوسرے سیشن میں ڈاکٹر محمد احتشام اختر نے”تقسیم پر مولانا ابوالکلام آزاد کی رائےاردو تحریروں کے حوالے سے“ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین،اسسٹنٹ پروفیسر سماجیات نے”سماجی اور ثقافتی علیحدگی کے طور پرتقسیم کے تجربات“ کے موضوع پر گفتگو کی۔پروفیسر صدیقی محمدمحمود، ڈین اسکول برائے تعلیم و تربیت اور ڈاکٹر دانش معین،صدر،شعبہ تاریخ نے سیشن کی صدارت کی اسسٹنٹ پروفیسرز ڈاکٹر سعید میو نے سمینار کی رپورٹ پیش کی اور ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین نے شکریہ ادا کیا۔
قومی اقلیتی کمیشن کی رکن سید شہزادی کا اردو یونیورسٹی کا دورہ :
حیدرآباد: 11۔اگست(پریس نوٹ)
محترمہ سید شہزادی،رکن قومی اقلیتی کمیشن،نئی دہلی نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کا دورہ کیا۔انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن،رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد،یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں اور اساتذہ اسٹاف سے تبادلہ خیال کیا۔محترمہ شہزادی نے یونیورسٹی کو درپیش مسائل پر گفتگو کی اور تیقن دیا کہ انہیں کمیشن اور وزیر اقلیتی بہبود محترمہ اسمرتی ایرانی سے رجوع کرتے ہوئے حل کرنےکی کوشش کریں گی۔
انہوں نے بطور خاص یونیورسٹی میں طالبات کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ قرآن میں لفظ اللہ کے بعد سب سے زیادہ لکھا ہوا لفظ علم ہے۔اس لیے ہمیں علم کے ذریعہ مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے حیدرآباد کی خواتین اور لڑکیوں کو درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔انہوں نے یونیورسٹی سے درخواست کی اسلام کے تعارف پرمشتمل ایک کتابچہ لکھ کر ان کے حوالےکرے تاکہ اسے وزارت کو پیش کیا جاسکے۔
پروفیسر سید عین الحسن،وائس چانسلر نے توظاہر کی کہ محترمہ سید شہزادی،اردو یونیورسٹی کے لیے وسائل کے حصول میں مددگار ثابت ہوں گی۔ اگر وزارت اقلیتی بہبود یونیورسٹی ضروری مالیہ فراہم کرتا ہے تو قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق یونیورسٹی میں مہارتوں کے فروغ کے لیے مراکزکو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔پروفیسر اشتیاق احمد،رجسٹرار نے مہمان کااستقبال کیا۔رکن قومی اقلیتی کمیشن نے گلزار گرلز ہاسٹل کابھی معائنہ کیا اور طالبات سے ملاقات کی۔