تانڈور کی تباہ حال سڑکوں پرگاڑیاں حادثات کا شکار،عوامی نمائندوں اور عہدیداروں کی خاموشی معنی خیز!

ریاستی خبریں ضلعی خبریں

تانڈور کی تباہ حال سڑکوں پرگاڑیاں حادثات کا شکار،عوامی نمائندوں اور عہدیداروں کی خاموشی معنی خیز!

سڑکوں کے گڑھوں میں بارش کے پانی کا ذخیرہ،عوام میں برہمی،سڑکوں کی مرمت کا مطالبہ

وقارآباد/تانڈور:22۔جولائی(سحرنیوزڈاٹ کام)

ضلع وقارآباد کے حلقہ اسمبلی تانڈور سے ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد ، پڑوسی ضلع محبوب نگر،ضلع ہیڈکوارٹر وقارآباد اور پڑوسی ریاست کرناٹک سے جوڑنے والی اور خود تانڈور کی اہم سڑکیں گزشتہ کئی سال سے اپنی بدحالی کا رونا رورہی ہیں۔

ان سڑکوں پر اتنے گہرے گڑھے موجود ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سڑک کہاں ہے اور گڑھے کہاں ہیں!اور سڑکوں پر موجود ان گڑھوں کی وجہ سے یہاں وقفہ وقفہ سے حادثات اور قیمتی انسانی جانوں کا ضائع ہونا عام بات بن کر رہ گئی ہے۔

بشمول رکن اسمبلی تانڈور ، دیگر منتخبہ عوامی نمائندوں ،مختلف سرکاری محکمہ جات کے عہدیداروں کے علاوہ خود محکمہ آراینڈ بی کے عہدیداروں کا انہی گڑھوں سے پُر سڑکوں پر سے گزر ہوتا ہے پھر بھی ان کی خاموشی معنی خیز ہے!

تانڈور چونکہ پتھر ، سمنٹ ،سدہ اور گنج کی صنعتوں کے باعث سارے ملک میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ملک کی ریاستوں آندھرا پردیش،کرناٹک،کیرالا، مہاراشٹرا، ٹاملناڈو، پانڈیچری کے بشمول دیگر ریاستوں اور تلنگانہ کے تمام اضلاع سے روزآنہ ہزاروں سمنٹ ٹینکرس اور بھاری مال بردار گاڑیاں یہاں آتی ہیں۔

جبکہ خود تانڈور میں سینکڑوں مال بردار اور عوامی گاڑیاں موجود ہیں ان گاڑیوں کے ذریعہ پتھر،سمنٹ اور دیگر اشیاء ملک کے مختلف مقامات کو منتقل کی جاتی ہیں۔

اتنے بڑے تجارتی مقام ہونے کے باوجود تانڈور کی سڑکوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں محکمہ آراینڈ بی کا وجود ہے بھی یا نہیں؟

اسی طرح مذکورہ بالا مقامات کو جوڑنے والی سڑکوں پر موجود پلوں کی حالت بھی انتہائی شکستہ ہے،تانڈور۔حیدرآباد اہم شاہراہ پر جاریہ ماہ ہی عارضی پل کے بہہ جانے سے ٹریفک کو براہ کوڑنگل موڑ دیا گیا ہے اس سڑک کی حالت بھی انتہائی خراب ہے جسے نیشنل ہائی 44 کی حیثیت حاصل ہے۔

جبکہ اسی کوڑنگل روڈ پر موجود کاگناندی کا بریج اپنی شکستگی کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے جبکہ گزشتہ دو مرتبہ زبردست بارش کے دؤران ندی کے سیلابی پانی میں اس پل کا ایک حصہ بہہ گیا تھا جسے جوڑ دیا گیا۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ اس نظام دؤر میں تعمیر کردہ 135 سالہ انتہائی شکستہ پل پر سے آج بھی سینکڑوں بھاری مال بردار گاڑیوں ، آرٹی سی بسوں اور دیگر عوامی سواریوں کو گزارا جارہا ہے۔پل کی حالت ایسی ہے کہ ایک گاڑی کے گزرنے تک دوسری گاڑی کو کھڑا ہونا پڑتاہے۔

یہاں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کاگنا ندی پل پر دوسال قبل ایک جدید پل کی تعمیر مکمل کرلی گئی لیکن آج تک اس پل کا افتتاح عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔اس پل پر ایک جانب سڑک ہے تو ایک جانب مٹی اسی پر سے گاڑیاں گزر رہی ہیں!!

تانڈور۔کرنکوٹ روڈ جو کہ سمنٹ فیکٹریز اور پتھر کی معدنیات کو جاتی ہے کی حالت بھی انتہائی قابل رحم ہے جہاں مال بردار گاڑیاں اور سمنٹ ٹینکرس پھنس رہی ہیں۔

تانڈور اور اطراف کی سڑکوں کی اس بدتر حالت پر عوام میں برہمی پائی جاتی ہے کہ تانڈور سے کروڑوں روپیوں کے ٹیکس کی حصولی کے باجود کیوں ان سڑکوں کی مرمت نہیں کی جاتی!۔اب جبکہ گزشتہ ایک ہفتہ سے بارش کا سلسلہ جاری ہے تو پہلے سے خراب یہ سڑکیں مزید تباہ ہوگئی ہیں۔

گڑھوں کی وجہ سے اُلٹ جانے والا مال بردار آٹو اور پس منظر میں گڑھوں سے پُر چنچولی روڈ دیکھی جاسکتی ہے۔

آج ایک ہی دن میں کرناٹک روڈ پر موجود شیواجی چوک کے پاس خراب سڑک اور گڑھوں کی بہتات کے باعث دو مال بردار آٹو الٹ گئے۔جبکہ دو تین دنوں سے کوٹ پلی ، کندینلی تانڈہ اور دیگر مقامات پر حادثات پیش آچکے ہیں۔عوامی مطالبہ ہے کہ تانڈور کی سڑکوں کی حالت فوری درست کی جائے اور ان حادثات کو روکا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے