کیرالا کے صحافی صدیق کپّن کوعلاج کیلئے دہلی منتقل کرنے سپریم کورٹ کا اترپردیش حکومت کو حکم

کیرالا کےصحافی صدیق کپّن کوعلاج کیلئے دہلی منتقل کرنے سپریم کورٹ کا اترپردیش حکومت کو حکم 

نئی دہلی:28۔اپریل(سحرنیوزڈاٹ کام)

سپریم کورٹ نے آج متھورا جیل میں قید کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو علاج کی غرض سے دہلی کےایمس ،رام منوہر لوہیا ہسپتال یا دہلی کے کسی اور سرکاری ہسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا ہےاور علاج کے بعد دوبارہ انہیں جیل بھیجا جاسکتا ہےجہاں وہ اترپردیش حکومت کی جانب سے یو اے پی اے کے تحت قیدرکھے گئے ہیں۔


جبکہ اترپردیش حکومت کے وکیل نے معزز چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی قیادت والی بنچ کو اس کیس کی شنوائی کے دؤران بتایا کہ صدیق کپن کی کوویڈ رپورٹ پازیٹیو آئی ہے اور متھورامیڈیکل کالج سے ڈاکٹرس نے انہیں ڈسچارج بھی کردیا ہے تاہم ان کے جسم پر موجودزخموں کا علاج کروانا ہے۔
متھورا جیل میں ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اتر پردیش حکومت کے الزامات کے تحت 6 مال سے قید کیرالا کے صحافی صدیق کپن کی اہلیہ ریحانت کپن نے معزز چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا سپریم کورٹ کو ایک مکتوب لکھتے ہوئے ان کے شوہر کی رہائی کی اپیل کی تھی اور جیل میں کوویڈ سے متاثر ہونے پر بہتر علاج کی غرض سے انہیں رہا کرنے کی درخواست کی تھی۔

وہیں کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی داخل کردہ پٹیشن پر آج معزز چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمناکی قیادت والی بنچ میں شامل جسٹس سوریہ کانت اوراے ایس بوپنا نے اس کیس کی سماعت کی۔اور کہا کہ صدیق کپن کی میڈیکل رپورٹ کے بموجب وہ بی پی، پلس ریٹ اور شوگر سے متاثر ہیںاور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔

صدیق کپن کی اہلیہ نے الزام عائد کیا تھا کہ کوویڈ سے متاثر ان کے شوہر صدیق کپن کو متھورا جیل میں علاج کے دؤران بیڈ پر باندھا گیا ہے اور انہیں ٹوائلٹ جانے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو 6ماہ قبل ماہ اکتوبر میں اتردیش پردیش پولیس نے دیگر تین افراد کیساتھ اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ہاتھرس میں پیش آنیوالے ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی ،ہسپتال میں موت اور پولیس کی جانب سے رات کے وقت نعش نذرآتش کیے جانے والے واقعہ کی رپورٹنگ کرنے کی غرض سے جارہے تھے۔

صدیق کپن پر اتر پردیش حکومت نے ملک سے غداری اور اتر پردیش میں حالات خراب کرنے کی نیت سے آنے کے الزامات کے تحت یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیا تھا اور ان کا تعلق پی ایف آئی سے بتایا تھا۔

جبکہ آج سپریم کورٹ کو صدیق کپن کے وکیل نے بتایا کہ صدیق کپن ایک معمولی صحافی ہیں جو ایک نیوز پورٹل کیلئے کام کرتے ہوئے ماہانہ 20تا 25ہزار روپئے کماتے ہیںاور بطور صحافی وہ ہرقسم کے لوگوں سے ملتے ہیں اس کے لیے انہیں کسی ایک تنظیم سے نہیں جوڑا جاسکتا۔

دوسری جانب چار دن قبل ہی وزیر اعلیٰ کیرالا پنارئے وجین اور کیرالا کے 11ارکان پارلیمنٹ اور کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے مکتوب لکھتے ہوئے کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو رہاء کرنے کی اترپردیش حکومت سے اپیل کی تھی۔ سپریم کورٹ میں صدیق کپن کی اہلیہ کی جانب سے صدیق کپن کو ضمانت پر رہاء کرنے کی درخواست کی اتر پردیش حکومت کے وکیل سالسیٹر جنرل تشار مہتہ نے مخالفت کی۔