الیکشن کمیشن کے چیف اور کمشنران کا انتخاب وزیراعظم، چیف جسٹس اور اپوزیشن لیڈر پرمشتمل کمیٹی کرے : سپریم کورٹ

قومی خبریں

الیکشن کمیشن کے چیف اور کمشنران کا انتخاب
وزیراعظم، چیف جسٹس اور اپوزیشن لیڈر پرمشتمل کمیٹی کرے : سپریم کور ٹ کا فیصلہ

نئی دہلی : 02۔مارچ
(سحر نیوز ڈاٹ کام/ایجنسیز)

سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی بنچ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کا انتخاب وزیراعظم، چیف جسٹس آف انڈیا اور لوک سبھا کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے نمائندہ پر مشتمل کمیٹی کے مشورہ پر کیا جانا چاہئے۔

آج 2 مارچ کومعزز جسٹس کے ایم جوزف،اجے رستوگی،انیرودھا بوس،ری کیش رائے اور سی ٹی روی کمارپر مشتمل پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ یہ سیٹ اپ اس وقت تک رہے گا جب تک مرکزی حکومت تقرریوں سے متعلق قانون نہیں بناتی۔

اپنے اس فیصلہ میں اس بنچ نے کہا کہ جہاں تک چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کےعہدوں پر تقرری کاتعلق ہے،یہ کام صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ ایک کمیٹی کے مشورے کی بنیاد پر کیاجائے گا جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم،چیف جسٹس آف انڈیا اورلوک سبھا میں قائد حزب اختلاف،اگر ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے،لوک سبھا میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر جس کی عددی طاقت سب سے زیادہ ہوشامل ہونگے۔اور یہ معمول اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک پارلیمنٹ کوئی قانون نہیں بنالیتی۔

یاد رہےکہ سال 2018 میں چیف الیکشن کمشنر اوردیگر کمشنران کےانتخاب کے طریقہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں داخل کی گئی تھیں ۔اپوزیشن جماعتوں کا الزام تھا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے پسندیدہ افراد کو ان عہدوں پر فائز کرتے ہوئے قواعد کی خلاف ورزی کررہی ہے اور ساتھ ہی کئی اپوزیشن جماعتوں نے یہ الزام بھی عائد کیاتھا اور کرتے رہتےہیں کہ الیکشن کمیشن حکومت کی منشاکے مطابق کام کرنے میں مصروف ہے اور یہ جانبداری سے کام لے رہاہے۔!!
ان درخواستوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں پانچ رکنی بنچ تشکیل دی گئی تھی۔ان درخواستوں کی سماعت،بحث و مباحثہ کے بعد 24 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جسے آج 2 مارچ کو معزز پانچ رکنی بنچ نے صادر کیا ہے۔

سپریم کورٹ کی اس بنچ نے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے لیے ایک مستقل سیکریٹریٹ قائم کرنے پرغور کرےاور یہ بھی کہ اس کے اخراجات ہندوستان کے کنسولیڈیٹیڈ فنڈ سے وصول کیے جائیں، تاکہ انتخابی ادارہ صحیح معنوں میں خود مختار ہو سکے۔

ملک کی اعلیٰ عدالت نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا آزاد ہونا ضروری ہے۔معززجسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی عمل کی شفافیت برقرار رکھی جائے۔ورنہ یہ اچھے نتائج نہیں دے گا۔انہوں نے کہا کہ ووٹ کی طاقت سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے مضبوط ترین جماعتیں بھی اقتدار سے محروم ہو سکتی ہیں۔اس لیے الیکشن کمیشن کا خود مختار ہونا ضروری ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ آئین کی دفعات کے مطابق اور عدالتی احکامات کی بنیاد پر اپنے فرائض غیر جانبداری سے،قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمیشن آف انڈیا کے عہدہ پر ایسا شخص ہونا چاہئے جو ضرورت پڑنے پر وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے گریز نہ کرے۔

معزز جسٹس کے ایم جوزف نے سنائے گئے فیصلے میں ریمارک کیا کہ،عدالت نے نوٹ کیا ہےکہ پیسے کی طاقت اور سیاست کے مجرمانہ کردار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے،اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنے کردار سے دستبردار ہوکر متعصب ہو گیا ہے۔

ایک الیکشن کمیشن جو کھیل کے اصولوں کےمطابق آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کو یقینی نہیں بناتاہے وہ قانون کی حکمرانی کی بنیادکے ٹوٹنے کی ضمانت دیتا ہے۔اختیارات کے وسیع دائرہ کار میں،اگر الیکشن کمیشن ان کو غیر منصفانہ یا غیر قانونی طور پر استعمال کرتا ہے جتنا وہ طاقت کے استعمال سے انکار کرتا ہے جب اس طرح کا استعمال فرض بن جاتا ہے تو اس کا سیاسی جماعتوں کی قسمت پر واضح اور پست حوصلہ کا اثر پڑتا ہے۔ملک کی اعلیٰ عدالت نے اس بات پر زور دیا گیا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کوخود مختار ہونا چاہئے اور آئینی فریم ورک کے مطابق کام کرنا چاہئے۔

آزادی کےگھوڑے پر سوار ہوکر یہ غیر منصفانہ طریقے سے بھی کام نہیں کر سکتا۔آزادی کا تعلق آخر کار اس سوال سے ہونا چاہئے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ایسا شخص جو اختیارات کے سامنے کمزور ہو اسے الیکشن کمشنر نہیں بنایاجا سکتا۔ایک شخص،جو فرض کی حالت میں ہو یااپنے مقرر کرنے والے کا مقروض محسوس کرتا ہو،قوم میں ناکام ہو جاتاہے اور جمہوریت کی بنیاد رکھنے والے انتخابات کے انعقاد میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ایک آزاد شخص متعصب نہیں ہو سکتا۔

معزز جسٹس اجے رستوگی نےکہاکہ چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی سپریم کورٹ کے جج کی طرح اور اسی بنیاد پر ہونی چاہئے۔الیکشن کمشنرز کی مزید برطرفی صرف چیف الیکشن کمشنر کی سفارش پر کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ دوسرے الیکشن کمشنرز کو ہٹانے کی بنیاد چیف کی طرح ہو۔

اس کیس کی سماعت کے دوران،معززبنچ نے اٹارنی جنرل (اے جی) آف انڈیا آر وینکٹارمانی سے پوچھا تھاکہ کیا ریٹائرمنٹ کے دہانے پر نوکر شاہوں کی تقرری کا موجودہ طرز عمل معقول ہے۔؟
اس بنچ نے یہ بھی مشاہدہ کیا تھا کہ مرکز میں اقتدار میں سیاسی جماعتیں چیف الیکشن کمشنرز کو اپنی بولی لگانے پر مجبور کرتی ہیں تاکہ اقتدار میں رہیں،اس طرح الیکشن کمیشن کی آزادی سے سمجھوتہ کیا جائے۔

عدالت نے چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کرنے والی کمیٹی میں چیف جسٹس آف انڈیا(سی جے آئی) کو شامل کرنے کا مشورہ دیاتھا۔معززجسٹس کے ایم جوزف نے کہا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 326 شہریوں کو ووٹ کا حق دیتاہے اور اسے پارلیمنٹ کےذیلی قانون سازی کے اختیارات سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ بنچ نے مرکزی حکومت سے یہاں تک سوال کیا تھا کہ چند ماہ قبل ارون گوئل کو الیکشن کمشنر کے طور پر مقرر کرنے کی کیا جلدی تھی اور ان کے انتخاب سے پہلے ہی ناموں کو کس طرح شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔؟معزز جسٹس کے ایم جوزف نے نشاندہی کی کہ موجودہ قانونی دفعات الیکشن کمشنرز اور چیف الیکشن کمشنرکےلیے الگ الگ شرائط فراہم کرتی ہیں،نہ کہ مجموعی طور پر یا زیادہ سے زیادہ 6 سال،جیسا کہ حال ہی میں ہوا ہے۔اس تناظر میں،عدالت نے پوچھا تھا کہ کس قانون کے تحت چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کرنے کا رواج الیکشن کمشنرز کو فروغ دیا جا رہا ہے۔؟

اس کیس میں سینئر ایڈوکیٹس گوپال سنکرارانارائنن،انوپ جی چودھری کےساتھ پرشانت بھوشن اور ویریندر کےشرما درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے۔جبکہ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی،سالیسٹر جنرل تشار مہتہ اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بلبیرسنگھ مدعی علیہان کی جانب سے پیش ہوئے۔

اس وقت ملک میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنران کی تقرری کےحوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تقرری کا پورا عمل مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔اب تک جو طریقہ کار اپنایا گیاہے اس کے مطابق سیکریٹری رینک کے موجودہ یا ریٹائرڈ افسران کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔بعض اوقات اس فہرست میں 40 نام تک ہوتے ہیں۔

اس فہرست کی بنیاد پر تین ناموں کا ایک پینل تیار کیاجاتا ہے ان ناموں پر وزیراعظم اور کابینہ غور کرتے ہیں۔ اس کے بعد وزیراعظم پینل میں شامل عہدیداروں سے بات کرتے ہیں اورمنظوری کے لیے نام صدرجمہوریہ ہند کو بھیج دئیے جاتے ہیں۔ان ناموں کےساتھ وزیراعظم ایک سفارشی مکتوب بھی روانہ کرتے ہیں۔جس میں ان عہدیداروں کے بطور الیکشن کمشنر/کمشنران منتخب کیےجانے کی وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں۔

آج سپریم کورٹ کی جانب سے دئیےگئے اس فیصلہ/ہدایت کا اپوزیشن جماعتوں نے خیرمقدم کرتےہوئے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے۔کانگریس نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہندوستان کی جمہوری اقدار کو کمزور کرنے کی بی جے پی کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔

کانگریس کے رکن راجیہ سبھا رنجیت سنگھ سرجے والا نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ”سپریم کورٹ کافیصلہ بہت اہم ہے۔جمہوری اقدارکو کمزور کرنے کی بی جے پی کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔چیف منسٹر دہلی اروند کیجریوال نے بھی اپنے ٹوئٹ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ان کے علاوہ ترنمول کانگریس کے ایم پی ڈیرک اوبین،شیوسینا(ادھو ٹھاکرے گروپ) کی رکن راجیہ سبھا پرینکا چترویدی،این سی پی کے بشمول دیگر جماعتوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔

نوٹ : اس تفصیلی رپورٹ کی تیاری میں قانونی ویب سائٹ ” بار اینڈ بنچ Bar & Bench ” سے بشکریہ مدد لی گئی ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے