زندگی ادھر آ جا ہم تجھے گزاریں گے!
جوار کے بیج بوتے ماں باپ اور سر پر ٹوکری اٹھاکر مدد کررہی کمسن لڑکی
تلنگانہ حکومت کی کسانوں کیلئے کروڑہا روپئے پر مشتمل اسکیمات پر سوالیہ نشان!
وقارآباد :30۔جون(سحرنیوزڈاٹ کام/خصوصی رپورٹ)
حکومت تلنگانہ اور چیف منسٹر کے۔ چندراشیکھر راؤ شروع ہی سے کسانوں کی ترقی اور ان کی معاشی بدحالی کو دور کرنے میں مصروف ہے،کسانوں کے لیے مختلف اسکیمات پر عمل آوری کی خبریں روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔
رعیتو بندھو اسکیم کے تحت سالانہ فی ایکڑ دس ہزار روپئے سیدھے کسانوں کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ہر سال حکومت رعیتو بندھو اسکیم کے تحت 15 ہزار کروڑ روپئے کسانوں کے بینک کھاتوں میں پہنچارہی ہے۔
کسانوں کو سبسڈی پر ٹریکٹر ،جانور، بیج ، کھاد ، زراعت کے اؤزاراور مختلف سہولتیں دینے کے دعوے بھی کرتی ہے اور اس پرعمل بھی ہوتا ہےشعبہ زراعت کیلئے حکومت تلنگانہ نے جاریہ سال کے بجٹ میں 1,500 کروڑ روپئے مختص کیے ہیں۔
پھر کسانوں کے پاس سے حکومت امدادی قیمت پر اجناس بھی خریدتی ہے۔لیکن اتنا سب کرنے کے باوجود ریاست میں کسانوں کے مسائل ہیں کہ کم ہونے کے نام نہیں لیتے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ کسانوں اور حکومت کے درمیان عہدیداروں کی دفتر شاہی اور تساہلی سب سے بڑی وجہ ہے!
کل ضلع وقارآباد کے حلقہ اسمبلی تانڈور کے پدیمول منڈل کے تحت موجود موضع کندینلی کے ایک کھیت میں ایک کسان جوڑا اور ان کی ایک معصوم لڑکی کی محنت اور کام دیکھ کرلوگوں کو محسوس ہوا کہ حکومت لاکھ دعوے اور اعلانات کرلے لیکن کسان کی تقدیر بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے!
اس کی وجوہات تلاش کرنا حکومت کا کام ہے کہ کیوں اتنی ساری اسکیمات پر عمل آوری کے باوجود آج بھی زیادہ تر کسان اپنے کھیتوں میں جانوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہیں؟؟
موضع کندینلی کے ساکن کسان جوڑے شیوراج اور ششی کلا نے اپنی زرعی اراضی میں جاریہ ماہ کے اوائل میں تور کے بیج بوئے تھے اب جبکہ کل بارش ہوئی تو اس جوڑے نے تور کی فصل کے ساتھ ساتھ جوار کی تخم ریزی کا بھی آغاز کیا۔
غربت کے باعث اس جوڑے پاس چونکہ اس کام کیلئے جانور موجود نہیں ہے تو بیوی ششی کلا نے جانور کی جگہ لے لی اور اس طرح جوار کے بیج بونے کا عمل شروع ہوا۔
ان کے ساتھ پہلی جماعت میں زیرتعلیم ان کی 9 سالہ معصوم لڑکی بھوانی بھی اس زرعی کام میں ان کے ساتھ کام پر لگ گئی۔
دیکھنے والوں کیلئے یہ منظر بڑا ہی دردناک تھا کہ ماں ششی کلا جانور کی طرح رسی سے بیج بونے والا زراعت کا اؤزار کھینچ رہی تھی، بیٹی بھوانی اپنے سر پر لوہے کی ٹوکری میں جوار کے بیج اٹھائے ان کے ساتھ چل رہی تھی اور باپ شیواراج اس ٹوکری سے جوار کے بیج لیکر زمین میں ان کو بورہا تھا۔
دیکھنے میں شاید کچھ لوگوں کو یہ منظر عام لگے لیکن اس میں بہت سوں کے لیے کئی پیغامات چھپے ہوئے ہیں ،بیوی اور بیٹی کے ساتھ مل کر بیج بونے والا شیواراج ہم سب کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ چاہے زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے وسائل بھلے ہی کم ہوں لیکن خوداعتمادی اور محنت و طاقت کے ذریعہ زمین کا سینہ چیر کر بھی اپنے حصہ کا رزق نکالا جاسکتا ہے۔
وہیں جانورکی جگہ خود کو باندھ کر اپنے کسان شوہر کے کام میں مدد کرنے والی بیوی ششی کلا یہ پیغام دے رہی ہے کہ زندگی صرف عیش و عشرت کے سامان کے ساتھ نہیں گزاری جاتی بلکہ اپنے شوہر کی مدد کرتے ہوئے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا اور اس کے حوصلوں کو اونچا رکھنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اور معصوم بیٹی بھوانی اپنے ماں باپ کے ساتھ ابر آلود موسم میں ہلکی اور تیز بوندا باندی کے درمیان بیجوں کی ٹوکری اٹھاکر قدم کے ساتھ قدم ملاکر ان کے کام میں مدد کرکے اُن والدین کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ ” لڑکیا ں بوجھ نہیں ہوتیں!” جو لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی ماں ، باپ اور بیٹی پر مشتمل یہ خاندان اپنی اس سخت محنت کے ذریعہ حکومتوں کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ کسانوں کی قسمت کے فیصلے ایوانوں اور ایر کنڈیشند کمروں میں بیٹھ کر نہیں کیے جاتے!
وہیں اس منظر میں سب کیلئے ایک پیغام یہ بھی پوشیدہ ہے کہ ہم جس رزق کو ضائع کرتے ہیں اس کو پیدا کرنے میں کسان کو کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے!!
اس سارے منظر کا ویڈیو یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ (ویڈیو)
ساتھ ہی ان نوجوانوں کیلئے بھی یہ معصوم لڑکی اور اسکے محنتی کسان ماں اور باپ یہ سبق دے رہے ہیں جو اچھے دنوں کی آس میں بہتر دنوں کو بھی گنواکر اپنی عمریں ضائع کرتے ہوئے ملازمتوں اور کاروبار سے نظریں چراکر اپنے والدین پر بوجھ بنتے ہیں!!
شاید زندگی کے اسی نشیب و فراز اور سختی کے پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے مشہور شاعر ناصر کاظمی نے کبھی کہا تھا کہ
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے زندگی ادھر آ جا ہم تجھے گزاریں گے