حیدرآباد کی ایک سینما تھیٹر کے انتظامیہ کو 12 لاکھ 81 ہزار روپئے ادا کرنے کا حکم
ٹکٹ میں 11 روپئے زائد وصول کرنے کا شاخسانہ، این اے اے کا فیصلہ
حیدرآباد: 01۔مارچ (سحر نیوز ڈاٹ کام)
گذشتہ چند سال سے بالخصوص کورونا وباء کےبعد سے زیادہ دکانداروں،ہوٹل مالکین،پھل اور ترکاری و گوشت فروشوں، پٹرول بنکس کےعلاوہ دیگر اشیاء کی خرید و فروخت کرنےوالوں کی جانب سےگاہکوں کے پاس سے من مانی انداز میں رقم وصول کرنے اور ناپ تول میں کمی کی شکایات عام ہیں۔!! حتیٰ کہ مختلف نامورکمپنیوں کی پیاک شدہ اشیاء کے وزن میں کمی کی شکایت بھی کی جاتی ہے۔
غرض ہر شعبہ میں مڈل کلاس اورغریب طبقہ جوکہ پہلے ہی آمدنی کے کم ہونے،ملازمتوں،کاروبارسےمحرومی اور آسمان چھوتی مہنگائی کےساتھ ساتھ ایسے دکانداروں کے بھی استحصال کا شکارہو رہا ہے۔دوسری جانب مارکیٹ میں کئی ایسی اشیاء فروخت ہوتی ہیں جن پر نہ تیار کنندہ کا نام ہوتا ہے،نہ پتہ اور نہ اس کے استعمال کرنے کی تاریخ Expiry Date درج ہی ہوتی ہے۔ایسی اشیاء زیادہ تر چھوٹے بچے خرید کر کھاتے ہیں۔
گذشتہ وقتوں میں دکانداروں کی ایمانداری کا یہ حال ہوا کرتاتھا کہ ترازو میں پہلے اشیاء تولی جاتی تھیں پھر کہیں گاہک کو کاغذ یا لفافہ میں ڈال کر وہ اشیاء دی جاتی تھیں تاکہ کاغذ اورلفافہ کے معمولی وزن کا نقصان بھی گاہک کو نہ ہو۔
وہیں چند سال قبل تک ایک سرکاری محکمہ”محکمہ اوزان و پیمانہ و جات Weights And Measures – Department کے عہدیدار باقاعدہ شہروں کے علاوہ ٹاؤنس میں اچانک دھاوے منظم کرکے گاہکوں کو فروخت کی جانے والی تمام اشیاء کا وزن چیک کیا کرتے تھے اور وہیں دکانات میں موجود ترازو اور ان کےمختلف کلو پرمشتمل باٹ( پتھر) بھی اپنے ساتھ لائے ہوئے ترازو سے تول کر جانچ کیا کرتے تھے۔
اگر اس میں 50 یا 100 گرام کی کمی بھی ہوتی تو دکانداروں پر جرمانے عائد کیےجاتے تھے۔باقاعدہ شیش کو پگھلاکر ان ناپ تول کے پتھروں میں انڈیل کران پر سرکاری مہر ثبت کی جاتی تھی۔وہیں سرکاری عہدیدار سینما تھیٹروں اور بس اسٹانڈز میں بھی زیادہ قیمت کی وصولی اور ناپ تول میں کمی کے خلاف کارروائی کیا کرتے تھے۔
لیکن افسوس کہ کئی سال سے اس محکمہ اوزان و پیمانہ و جات اور اس محکمہ سے وابستہ عہدیداروں کو حرکت میں دیکھنے،ان کی کارروائیوں کے متعلق سننے اور خبریں پڑھنے کے لیے ترس گئے ہیں۔!!
ناپ تول میں کمی،صارفین سے طئے شدہ قیمت سے زائد رقم وصول کرنا قانونی نقطہ نظر سے جرم اور دھوکہ دہی کے دائرہ میں آتا ہے اور زیادہ تر گاہک طویل قانونی کشاکش کے باعث ایسے دکانداروں کی من مانی برداشت کرلینے پرمجبور ہوجاتےہیں۔وہیں قوانین کے پہلوؤں سے واقف افراد اس لوٹ کھسوٹ کےخلاف باقاعدہ صارفین کےفورم (Consumer Form) اور عدالتوں سےرجوع ہوکرجہاں اپنا حق حاصل کرلیتے ہیں۔وہیں جرمانے کے طور پر دکانداروں سے وصول کی گئی رقم کے حقدار بھی بن جاتے ہیں۔
ایک ایسے ہی واقعہ میں ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کے دو افراد نے تین سالہ جدوجہد کے بعد سینما تھیٹر کے انتظامیہ کی جانب سے سینما کے ایک ٹکٹ پر 11 روپئے 74 پیسے زائد وصول کیے جانے کے خلاف درج کروائی گئی شکایت میں کامیابی حاصل کی اور سینما تھیٹر مالک کو حکم دیاگیاہے کہ وہ ان دونوں فلم بینوں کو فی ٹکٹ وصول کی گئی زائد رقم 18 فیصد سود سمیت ادا کرے اور 12 لاکھ 81 ہزار روپئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو داکرے۔
نیشنل اینٹی پرافٹیرنگ اتھارٹی (این اے اے)( قومی مخالف منافع خوری اتھارٹی ) کا فیصلہ سنتوش سنجے اور سندیپ کمار کی جانب سے میراج انٹرٹینمنٹ لمیٹڈ کے خلاف دائر ایک مقدمہ میں دیا گیا،جو حیدرآباد کےمضافاتی ضلع رنگاریڈی کے چیتنیا پوری میٹرو اسٹیشن (روبرو فروٹ مارکیٹ، کوتہ پیٹ) کے قریب شالنی، شیوانی تھیٹر چلاتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حیدرآباد کے دو افراد سنتوش سنجے اور سندیپ کمارنے این اے اے سے یہ معاملہ رجوع کیا تھا اور اپنی شکایت میں الزام عائد کیاتھا کہ جب تھیٹر نے داخلہ فیس پر گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کو 18 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کردیا تو اس نے اپنی بنیادی قیمت میں اضافہ کیا۔تھیٹر نے ایگزیکٹو زمرے میں 11.74 روپے فی ٹکٹ اور گولڈن زمرے میں 16.06 روپے کی رقم کا اضافہ کیا۔
اس کیس کے دؤران میراج انٹرٹینمنٹ نے اعتراف کیاکہ انہوں نے فلم دیکھنے والوں کو فائدہ نہیں پہنچایا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 49.5 فیصد حصہ فلم ڈسٹری بیوٹر کو دیا گیا اور باقی 50.5 فیصد ان کے پاس ہے،جو کہ 5 لاکھ 33 ہزار روپئے ہے۔
نیشنل اینٹی پرافٹیرنگ اتھارٹی (قومی مخالف منافع خوری اتھارٹی )نےتھیٹر چلانے والے میراج انٹرٹینمنٹ لمیٹڈ سے کہا کہ ان دونوں سے وصول کی گئی زائد رقم بمعہ 18 فیصدسود ادا کی جائے اور ٹکٹوں میں جی ایس ٹی میں کمی نہ کرنے کے لیے مرکز اور تلنگانہ دونوں کے کنزیومر ویلفیئر فنڈ میں 12 لاکھ 87 ہزار روپئے جمع کروائے۔
این اے اے جی ایس ٹی قانون کے تحت ایک قانونی طریقہ کارہے جو جی ایس ٹی قانون کے تحت رجسٹرڈ سپلائرز کی غیر منصفانہ منافع خوری کی سرگرمیوں کو چیک کرتا ہے۔اتھارٹی کا بنیادی کام اس بات کو یقینی بناناہے کہ جی ایس ٹی کونسل کی جانب سے کیے گئے سامان اور خدمات پر جی ایس ٹی کی شرحوں میں کمی اور ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کے مساوی فوائد وصول کنندگان تک پہنچ جائیں۔
یاد رہے کہ بنگلورو میں ایک بس کنڈاکٹر کی جانب سے مسافر کو ایک روپیہ واپس ادانہ کیے جانے کے تین سال قدیم کیس میں گذشتہ دنوں کنزیومر کورٹ نے حکم دیا تھا کہ بنگلورو میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ کارپوریشن مسافر کو دو ہزار روپئے ادا کرے اور ساتھ ہی ایک ہزار روپئے بطور کورٹ فیس جمع کروائے۔
اسی طرح اکتوبر 2021 میں حیدرآباد کنزیومر کورٹ نے ایک شکایت کنندہ مسافر کی شکایت پر اولا کمپنی کو مسافر کو ہونے والی ذہنی تکلیف پر 88 ہزار روپئے ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ساتھ ہی قانونی چارہ جوئی کا خرچ 7 ہزار روپئے عائد کیا تھا۔مسافر نے کنزیومر فورم سے شکایت کی تھی کہ صرف 4 کلومیٹر کاسفر کرنے پر اسےزبردستی 861 روپئے ادا کرنے پرمجبور کیاگیاتھا جبکہ اس کے لیے 200 روپئے سے بھی کم کرایہ ہوتا ہے۔
زیادہ تر صارفین ایسے معاملات میں خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں،شاید اب بھی یہ سلسلہ جاری ہوگا کہ چلر نہ ہونے کا بہانہ کرکے اکثر دکاندار چاکلیٹ یا کوئی اور چیز گاہک کو زبردستی چپکا دیتے ہیں۔!!