تلنگانہ میں اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان پر ہائیکورٹ برہم
جلد بازی میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیسے لیا جاسکتا ہے؟ غیر مقامی افراد کا کیا ہوگا؟؟
حیدرآباد:11۔مئی(سحرنیوزڈاٹ کام)
ریاستی کابینہ کے اجلاس میں کوروناوائرس کے بڑھتے معاملات کو روکنے کی غرض سے آج ڈھائی بجے دن سے قبل ریاستی حکومت نے ریاست تلنگانہ میں کل 12مئی تا 21 مئی دس روزہ مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔جسکے دؤران عوام کو روزآنہ صبح 6بجے تا 10 دن اشیائے ضروریہ کی خریدو فروخت کی اجازت ہوگی۔
حکومت کے اس فیصلہ سے قبل دوپہر میں ریاستی ہائیکورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل سے پوچھا تھا کہ ریاست میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کیلئے حکومت کا موقف کیا ہے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ اس سلسلہ میں آج دو بجے دن چیف منسٹر کے سی آر کی قیادت میں کابینہ کا اجلاس منعقد کیا جارہا ہے اس میں لاک ڈاؤن سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ جس کے بعد ہائیکورٹ نے ڈھائی بجے تک اس کیس کی سماعت کو ملتوی کردیا تھا۔
بعد ازاں حکومت کی جانب سے کل سے ریاست میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے اعلان اور اس سے ہائیکورٹ کو واقف کروانے کے بعد ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ اس طرح جلد بازی میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیسے لیا جاسکتا ہے؟
ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ اس طرح اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلہ سے قبل حکومت کو ہفتہ واری لاک ڈاؤن کے نفاذ تک کابھی خیال کیوں نہیں آیا تھا!
ہائیکورٹ نے پوچھا کہ ایک دن سے بھی کم وقت کا وقفہ دئیے بغیر اچانک کل سے لاک ڈاؤن کے اعلان سے دور دراز مقامات کے لوگ کس طرح اتنے کم وقت میں اپنے اپنے مقامات کو پہنچیں گے؟ ایڈوکیٹ جنرل سے ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ اس طرح اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان سے قبل تمام حالات پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟
ساتھ ہی ہائیکورٹ نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے نفاذ سے دیگر ریاستوں میں اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ریاستی ہائیکورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ کم ازکم ایک دن کی بھی مہلت دئیے بغیر اس طرح اچانک لاک ڈاؤن کے نفاذ کے اعلان کے سلسلہ میں وضاحت کرے کہ تلنگانہ میں مقیم دیگر ریاستوں کے لوگ،ریاست کے دوردراز مقامات والے خاندان ،مہاجر مزدور اور دیگر افراد کس طرح اتنے کم وقت میں اپنی اپنی ریاستوں اور اپنےاپنے مقامات تک پہنچ پائیں گے؟
اور ہدایت دی کہ گزشتہ سال ان افراد کو اچانک لاک ڈاؤن کے باعث جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا ان تکالیف کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے اس کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
جس پر ایڈوکیٹ جنرل جی ایس پرساد نے ہائیکورٹ کو بتایا کہ اب تک 50 فیصد غیر ریاستی اورغیر مقامی مہاجر مزدور اپنے اپنے مقامات کو پہنچ گئے ہیں ۔
ہائیکورٹ کے اس سوال پر کہ اس لاک ڈاؤن کے دؤران شام کے اؤقات کچھ رعایتیں دی جائیں گی؟ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب کورونا پٹیشن پر آج منگل ہی کو سماعت کرتے ہوئے ریاستی ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ بین الاقوامی طرز کی طبی سہولتوں کی فراہمی کے حامل حیدرآباد میں علاج کی غرض سے آنیوالے دیگر ریاستوں کے مریضوں کے ایمبولنس سرحدات پر کیوں روکے گئے ہیں؟
تمام امراض کے بہتر علاج کی امید میں ہی مریض حیدرآباد منتقل کیے جاتے ہیں ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی طرح کے قبل از وقت تحریری اعلان کے بغیر ایمبولنس گاڑیوں کو سرحدات پر روکنا انہیں واپس لوٹانا دستور کی دفعات(D) (1) 14,19 کو مسترد کیے جانے کے مماثل ہے۔
عدالت نے ریمارک کیا کہ اس سلسلہ میں حکومت کی زبانی ہدایت ہے بھی یا نہیں ایڈوکیٹ جنرل کے علم میں یہ بات بھی نہیں ہے!!
بہت ہی اچھی نیوز ہے
اردو تحریر بھی بہت عمدہ ہے
ہمت بہت شکریہ