اردو زبان سے دوری کے باعث مذہب سے بھی دوری افسوسناک :ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم

ریاستی خبریں مضامین و رپورٹس

اردو زبان سے دوری کے باعث مذہب سے بھی دوری افسوسناک: ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم
تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی اردو کی ترقی و ترویج میں مصروف: ڈاکٹرمحمد غوث، ڈائرکٹر/سیکریٹری
محسن خان کی تیسری کتاب ” میزان ادب ” کی رسم اجراء

حیدرآباد: 06۔اگست (سحر نیوز ڈاٹ کام/رپورٹ)

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم،صدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو زبان سے دوری کی وجہ سے ہم مذہب سے بھی دور ہورہے ہیں کیوں کہ اردو زبان میں جتنا مذہبی مواد دستیاب ہے اتنا کسی اور زبان میں نہیں۔ انہوں نے اردو کی بقاء کے لیے فکر مند اردو والوں کو مشورہ دیا کہ ہم میں سے ہر فرد کسی ایک شخص کو اردو پڑھانے کی ذمہ داری قبول کرے۔

ذاکٹر سید فضل اللہ مکرم ذیمریس ہال، حیدرآباد میں "عصر حاضر میں اردو ذریعہ تعلیم” کے موضوع پر توسیعی لکچر دے رہے تھے۔

اپنے خطاب میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے شکایتوں کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ زبانیں کبھی ختم نہیں ہوتیں جب تک اہل زبان اس کو ختم نہ کریں۔

انہوں نے کہا اسرائیلی زبان جو تقریباً ختم ہوچکی تھی آج اس کو اسرائیلیوں نے دوبارہ زندہ کر رکھا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اردو سے متعلق کچھ کام کرتے ہوئے احسان نہ جتائیں کیونکہ ہم زبان کا حق ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے کہا کہ تین چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے کچھ مانگا نہیں جاتا بلکہ ان کو دیا جاتا ہے اور یہ "ماں ، مادرِ ودطن اور زبان” ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا کام کرتے رہیں، تنقیدیں ہوں گی اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کچھ کر رہے ہیں۔

اپنے توسیعی خطاب میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، صدرشعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے کہا کہ 18 ویں عیسوی میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کا مقصد انگریزوں کو اردو سکھانا تھا۔بعدازاں ہندوستانیوں کو انگریزی علوم سکھانے کے لیے دلی کالج قائم ہوا۔ 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزی زبان ہم پر مسلط کردی گئی جس کا اثر آج بھی برقرار ہے۔

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے کہا کہ زبان صرف ذریعہ ہے علم نہیں‘ علم کا حصول زبان کے ذریعہ ہوتا ہے۔سینکڑوں ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہئے۔

آج ہمارے گھروں میں انگریزی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ بچے انگریزی زبان سیکھیں لیکن اردو زبان کو اس سے نقصان ہورہا ہے اور ہماری تہذیب کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔جبکہ انٹرنیٹ پر بہت سار ے ویڈیوز اور مواد دستیاب ہے جہاں سے ہمارے بچے اردو سیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے اردو میڈیم اسکولس کے بنیادی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اردو میڈیم اساتذہ کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے کیونکہ اردو ہماری شناخت ہے۔آج لوگوں کے ذہن میں اردو میڈیم اسکولس کے تعلق سے جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں اسے دور کرنے کے لیے ہم تمام اردو والوں کو پہل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی ان اسکولوں میں اردو میڈیم طلبہ کی کثیر تعداد موجود ہے، مگر چند وجوہات کی بناء پر یہ اردو میڈیم اسکولس مقبول نہیں ہو رہے ہیں اس پر تمام محبان اردو کو غور کرنا چاہئے۔

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے اپنے توسیعی خطاب میں کہا کہ صحافی سماج کا نباض ہوتا ہے اور اس شعبہ سے وابستہ افراد کو حق حاصل ہے کہ وہ اردو زبان پر بیباک رائے قائم کریں، اردو صحافت سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی فروغ اردو کے لیے مزید کوشش کرنا چاہئے اور اردو میڈیم اسکولس کی عدم مقبولیت کی وجہ تلاش کرتے ہوئے اس کا موثر حل نکالنا چاہئے۔

ڈاکٹر محمد غوث ڈائرکٹر/سکریٹری تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی نے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی اردو زبان کی ترقی و ترویج میں مصروف ہے انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی زیرنگرانی ریاستی اردو اکیڈیمی نے ایک اردو کتاب "دروس” تیار کی ہے جس کے ذریعہ اردو سِکھانے کا کام کیا جا رہا ہے اور اسے آن لائن سیکھنے کا بھی اکیڈیمی نے انتظام کر رکھا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ بچوں کو نورانی قاعدہ کے ساتھ ساتھ بولتا قاعدہ بھی پڑھائیں۔انہوں نے نوجوانوں اور اسکالرس کو ترغیب دی کہ وہ اکیڈیمی کی جانب سے شائع ہونے والے ماہناموں "قومی زبان” اور "روشن ستارے” کے لیے مضامین لکھیں کیونکہ اسکول کے بچوں کو اردو سکھانے کے لیے "روشن ستارے” اہم میگزین ہے۔

ڈاکٹر محمد غوث نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان کی حفاظت کی ذمہ داری اداروں کے ساتھ ساتھ ہر فرد پر بھی عائد ہوتی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے اداروں میں اردو کو پہنچانے کی ضرورت ہے،اس سے اردو زبان کے طلبہ کو وہاں روزگار حاصل ہوگا۔

اس موقع پر ریسرچ اسکالر محسن خان کی تیسری تصنیف "میزان ادب” کا رسم اجراء عمل میں آیا اور ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں آل انڈیا اردوماس سوسائٹی فار پیس کی جانب سے "انمول رتن” ایوارڈ پیش کیا گیا۔

ڈاکٹر مختار احمد فردین نے اپنے خیر مقدمی خطاب کے ذریعہ مہمانوں کا استقبال کیا جبکہ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید حبیب امام قادری(مدیر "تاریخ دکن”) نے انجام دیئے۔خواجہ سعید الدین (تلنگانہ گرین کراس سوسائٹی)، محمد سمیع، محمد شعیب اور محمد سیف نے انتظامات کی نگرانی کی۔

اس توسیعی خطاب میں ڈاکٹر محمد ناظم علی، محمد آصف علی، ڈاکٹرجاوید کمال، ڈاکٹر م ق سلیم، ڈاکٹر محامد ہلال اعظمی، جہانگیر قیاس، عظمت اللہ بیابانی، ڈاکٹر ایم اے ساجد، سیداصغر، سلیم فاروقی، خالد صدیق حسین اور دیگر شریک تھے۔

مکمل تقریب کو "تاریخ دکن چینل” اور "ذیمریس فیس بک پیج” پر براہ راست پیش کیا گیا جس کا محبان اردو کی کثیر تعداد نے مشاہدہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے