میں عورت یا مرد پر نہیں بلکہ ان کے بنیادی مسائل پر لکھتی ہوں، شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر سے ایک ملاقات

قومی خبریں مضامین و رپورٹس

میں عورت یا مرد پر نہیں بلکہ ان کے بنیادی مسائل پرلکھتی ہوں
شعبہ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر سے ایک ملاقات

اسماء امروز ۔ ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں 16 جنوری کوبعنوان”فکشن نگار سےایک ملاقات” کی ایک نشست رکھی گئی۔اس پروگرام کی مہمان خصوصی مشہور فکشن نگار” ڈاکٹر صادقہ نواب سحر "تھیں۔اس پروگرام میں شعبہ اردو سے فارغ ریسرچ اسکالرڈاکٹرطیب پاشاقادری،ڈاکٹرسعداللہ سبیل،ڈاکٹر محسن جلگانوی اور ڈاکٹر صبیحہ نسرین بھی شریک تھے۔

صدرشعبہ اردو پروفیسرسید فضل اللہ مکرم نے مہمانان کا استقبال کیا اور صادقہ نواب سحر کا تعارف پیش کرتےہوئے کہا صادقہ نواب سحر عرصہ دراز سے مہاراشٹرا میں قیام پذیر ہیں،لیکن آپ کا اصل وطن گنٹور آندھرا پردیش ہے۔آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،آپ نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ہے۔آپ نے شاعری، ناول،افسانے،ڈرامے،انشائیے لکھے۔

انہوں نےبتایا کہ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کےعلمی و ادبی خدمات پر ہندوستان کی مختلف جامعات میں تحقیقی کام بھی ہورہاہے۔بالخصوص ہمارے شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدر آباد میں آپ پر ایم فل کا کام ہوا ہے۔اس تعارف کے ساتھ روایت کے مطابق مہمان خصوصی کی شال پوشی کی گئی اور گل پیش کیے گئے۔
بعد ازاں ڈاکٹر رفیعہ بیگم نے صادقہ نواب سحر کا تعارف پیش کیا جس کی ابتداء انہوں نے اس شعر سے کی۔

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

ڈاکٹر رفیعہ بیگم نے بتایا کہ آپ کا تعلق ہندی درس و تدریس سے ہے۔لیکن آپ نے اردو میں کم و بیش ہر صنف میں طبع آز مائی کی۔آپ کی ادبی زندگی کاآ غاز شعر گوئی سے ہوا۔اور آپ کا پہلا شعری مجموعہ” انواروں کے پھول(1996ء)” میں منظر عام پر آیا۔بچوں کے لیے نظمیں بعنوان” پھول سے پیارے پھول ” لکھیں۔لیکن وہ تخلیقی فن پارہ جس نے صادقہ نواب سحر کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے وہ ہے ناول ”  کہانی کوئی سنائو متاشا ” جو 2008ء میں شائع ہوا۔اور منظر عام پر آتے ہی ادبی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔آپ کا دوسرا ناول”جس دن سے”ہے۔اس مختصر سے تعارف کے بعدصادقہ نواب سحر کو مدعو کیا گیا اور پھر گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ پروگرام در اصل ذو طرفین تھا۔جس میں لیکچر کے بجائے سوال و جواب اور گفتگو کو ترجیح دی گئی۔ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اپنے خاندانی حالات،اپنی تعلیم و تربیت خصوصاََ اپنے شوہر نواب صاحب کا تفصیل سے تذکرہ کیا کہ انہوں نے مجھے لکھنے پڑھنے اور پروفیشنل خدمات انجام دینے میں بھرپور ساتھ دیا اگر ان کا یہ ساتھ نہ ہوتا تو شاید میں اتنا سب کچھ حاصل نہیں کرپاتی۔

گفتگو کا آغاز صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد پروفیسر فضل اللہ مکرم نے اپنے سوال سے کیا۔
پروفیسر فضل اللہ مکرم :’’ آپ امور خانہ داری اور درس و تدریس کے فرائض ادا کرتے ہوئے لکھنے پڑھنے کے لیے وقت کیسے نکال پاتی ہیں؟

صادقہ نواب سحر: وقت ہر کسی کے پاس ہوتا ہے اور اگر کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے وقت نکال ہی لیتاہے۔ میں وقت کو دو حصوں میں بانٹتی ہوں،زیادہ تر وقت تو ذہنی ہوتا ہے۔اگر کوئی کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو 80 فیصد کام ذہن میں ہی تیار ہوجاتا ہے۔جیسے ایک کردار میرے ذہن پہ چھایا ہوا ہے اور مجھے اسے لکھنا ہے تو وہ میرے ذہن میں چلتا رہتا ہے۔جتنا زیادہ وہ ذہن میں چلے گا لکھنے کی مدت دوگنی ہوجائے گی کیونکہ سارا کام ذہن میں ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر محمد کاشف : کس فکشن نگار سے آپ متاثر ہیں؟

صادقہ نواب سحر: بچپن میں پہلی کہانی جس نے میرے دل کو چھوا تھا اور اب بھی میں اس سے کافی متاثر ہوں،وہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی کہانی ” ابو خان کی بکری” ہے۔اور اسی طرح پیغمبران اسلام کی کہانیاں ہیں عموماََ بچپن میں نانی یا گھر کی خواتین کا گھر کے لڑکوں کو زیادہ اہمیت دینا،ہمارے سماج میں عورتوں کو دبایا جانا وغیرہ سب کچھ میرے لکھنے کا محرکہ بنا۔لیکن اب میرے نزدیک عورت اور مرد انسانیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسی ہی بہت سی کہانیوں نے میرے ذہن پر اثر ڈالا ہے۔اور بہت سارے افسانہ نگاروں،ناول نگاروں،شاعروں کی تخلیقات سے متاثر ہوں۔آپ لوگ بھی لکھئے،کیونکہ لکھنا صفحہ قرطاس پراپنے ذہن کو اتارناہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لکھا کریں۔اورخواتین کو خاص طور سے لکھنے کی ضرورت ہے،کیونکہ ویسے ہی سماج انہیں بولنے سے روکتا رہتا ہے۔جو بھی لکھیں تہذیب کی حد میں رہ کرلکھیں۔اور وہی سچ لکھیں جسے آپ سچے دل سے سچ سمجھتے ہیں۔کیونکہ ہر کسی کا سچ مختلف ہوتا ہے۔جیسے شکیل بدایونی کا شعر ہے کہ ؎
ایک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اور اسی طرح ساحر لدھیانوی نے بھی کہا

ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑیا ہے مذاق

دونوں کی باتیں اپنی اپنی جگہ سچ ہیں۔ایک شاعر نے اپنی نظر سے اس کو دیکھا اور سچ مان کر لکھا اور دوسرے شاعر نے اپنی نظر سے سچ کو دیکھا اور لکھا۔

پروفیسر فضل اللہ مکرم : آپ کا تعلق آندھرا پردیش سے ہے لیکن آپ کے مہاراشٹرا کو منتقل ہونے کے کیا اسباب رہے؟

صادقہ نواب سحر : ہمارا تعلق ضلع گنٹور سے ہے۔کرمان سے ہمارے ننہیال والے اسلام کی تبلیغ کے لیے آئے تھے۔میرے والد ویدر انسپکٹر تھے پھر بزنس شروع کیا اور جب میں چھ ماہ کی تھی تومیرے والدین ممبئی لے کر چلے گئے اور میری پڑھائی بھی وہیں ہوئی۔لیکن گنٹور بلکہ پورا پرانا آندھرا پردیش ہمارے دل میں ہے۔

محمد خوشتر : آپ خالص تلگو علاقے میں پیدا ہوئیں اور پھر مراٹھی سے واسطہ پڑا تو کیا زبانوں کو لے کر کبھی آپ کو لکھنے میں دقت پیش آئی؟

صاقہ نواب سحر :  تلگو ہمارے یہاں چھپانے کی زبان تھی،میرے والدین آپس میں بولا کرتے تھے،مجھے تلگو نہیں آتی۔میں نے مراٹھی پڑھی اور مراٹھی میں پڑھایا۔

جاوید رسول : آپ کا ناول” کہانی کوئی سناو متاشا ” میں تانیثیت جھلکتی ہے۔جس میں عورت پر ہونے والے ظلم کو دکھایا گیا ہے لیکن مرد پر جو ظلم ہوتا ہے اس پر کیوں نہیں لکھاجاتا؟

صاقہ نواب سحر : میں انسان کے مسائل پرلکھتی ہوں میرے ناول”راجدیو کی امرائی” کا مرکزی کردار مرد ہے۔لیکن جب مرد عورت کے مسائل پر لکھتا ہے تو اس کی خوب واہ واہی ہوتی ہے اور جب کوئی عورت عورت کے مسائل پر لکھتی ہے تو پھر وہ فیمنیسٹ ہوجاتی ہے۔میں ان چیزوں میں نہیں پڑتی اور نہ کسی کو پڑنا چاہئے۔

اس کے بعدطیب پاشاہ قادری نے اپنے چند اشعار سنائے۔ان کا ایک شعر مجھے یاد رہ گیا ملاحظہ ہو ؎
نظر سے گزرے یوں تو ہزارہا چہرے
نظر میں ٹھہرا تو ایک چہرہ آپ کا ٹھہرا
طیب پاشا کے بعد صبیحہ نسرین نےبھی اپنے کلام کو سامعین کو محظوظ کیا۔ان کا لب و لہجہ نیایت سادہ تھا۔ان کے کلام سے ایک شعر ملاحظہ ہو؎
ملا کر قدم سے قدم چاندنی میں
چلو تاج دیکھے صنم چاندنی میں
ان کے بعد ڈاکٹر سبیل نے اپنا کلام پیش کیا،ایک شعر ملاحظہ ہو؎
خدا کی انوکھی نگارش ہو تم
مرا خواب ہو مری خواہش ہو تم
ان کے بعد ڈاکٹرمحسن جلگانوی نے بڑے خوبصورت اور پر کشش انداز میں اپنا کلام پیش کیا جن میں سے ایک شعربہت پسند کیا گیا؎
لحد کی مٹی بھی دینے کوئی نہیں آیا
ہزاروں چاہنے والے لواحقین میں تھے
پروگرام کے اختتام پر صادقہ نواب سحر نے اپنی نظم ’’گلا‘‘ سنائی،ملاحظہ ہو؎
چاند کا پھول کا،چاندنی رات کا پیار کی بات کا
قدر داں اب زمانے میں کوئی نہیں
من میں ایسی کوئی جاگ اٹھے لگن
جس سے تن پائے سکھ خوشی پائے من
جس سے دھل جائے غم،جس سے کھل جائے دل
ایسی برسات کا قدر داں اب زمانے میں کوئی نہیں

اس طرح یہ دلچسپ پروگرام ڈاکٹررفیعہ بیگم کےشکریہ پر اختتام پذیر ہوا۔جس میں شعبہ اردو کےدیگر اساتذہ پروفیسرحبیب نثار، ڈاکٹراے آرمنظر، ڈاکٹر محمد کاشف، ڈاکٹر نشاط احمد کے علاوہ طلبا و طالبات اور ریسرچ اسکالرز کی کثیر تعداد شریک تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے