بارش کے موسم میں بچوں میں بخار،کھانسی اور زکام عام بات،اس کو کورونا سے نہ جوڑا جائے : طبی ماہرین کا مشورہ

ریاستی خبریں طبی نسخے قومی خبریں

بارش کے موسم میں بچوں میں بخار،کھانسی اور زکام عام بات
اس کو کورونا سے نہ جوڑا جائے ،مشہور طبی ماہرین کا مشورہ

حیدرآباد :16۔جون(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)

کوروناوائرس کی تیسری لہر کی پیش قیاسیوں، افواہوں اور اندیشوں سے سب سے زیادہ پریشان چھوٹے بچوں کے والدین ہیں کیونکہ اس بات کو سوشیل میڈیا اور میڈیا کے ایک گوشے کی جانب سے عام کردیا گیا کہ اس تیسری لہر کے دؤران سب سے زیادہ بچے متاثر ہونگے۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ موسم برسات میں بالخصوص بچوں کو بخار، کھانسی،زکام،سردی قئے عام بات ہے جو صدیوں سے چلتی آرہی ہے اور والدین اس معاملہ کو ہرگز کوروناوائرس سے نہ جوڑیں اور نہ خوفزدہ ہوں بلکہ ماہر اطفال سے رجوع کرتے ہوئے علاج کروائیں۔

حیدرآباد کے مشہور ماہر اطفال ڈاکٹر کیدار کا کہنا ہے کہ بارش کے موسم میں نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی ان امراض سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ موسم یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اور ہواؤں کے باعث موسم سرد ہوجاتا ہے ان حالات میں کمزور قوت مدافعت کے حامل لوگ بیمار ہوجاتے ہیں۔

ماہر اطفال ڈاکٹر کیدار نے کہا کہ سردی، کھانسی ،بخار کو کوروناوائرس سے نہیں جوڑنا چاہئے کیونکہ ہر بخار، سردی ، کھانسی اور گلے کی خراش کورونا مرض نہیں ہوتا اور ڈاکٹرس کی صلاح کے بغیر اپنی جانب سے بچوں کا کوروناٹسٹ کروانا بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔

اس لیے مذکورہ شکایات کے بعد بچوں کو ڈاکٹرس سے رجوع کریں اور بعد تشخیص اگر ڈاکٹر کورونا ٹسٹ کروانے کا مشورہ دیں تو ہی ٹسٹ کروائیں۔ساتھ ہی ڈاکٹر کیدار نے والدین کو مشودہ دیا ہے کہ وہ کوروناوائرس کی تیسری لہر سے متعلق افواہوں اور اندیشوں کا بالکل شکار نہ ہوں۔

اس معاملہ میں ڈاکٹر ایم اے وحید ( ایم ڈی، یونانی) کا بھی کہنا ہے کہ بچوں کے بیمار ہونے پر والدین کا پریشان ہونا ایک فطری بات ہے مگر والدین اس معاملہ میں خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ یہ وقت خوفزدہ یا پریشان ہونے کا نہیں بلکہ مناسب طریقہ سے حالات سے نمنٹنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ایم اے وحید نے کہا کہ قوت مدافعت پر توجہ دینا انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صحت مند، تغذیہ بخش اور خشک میوہ جات کا استعمال کیا جائے جس سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔اور امراض سے بچنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

ساتھ ہی ڈاکٹر ایم اے حمید (ایم ڈی یونانی) نے مشورہ دیا کہ بچوں کو ٹھنڈے پانی اور سافٹ ڈرنکس سے دور رکھیں اور بارش کے موسم میں پانی کو اُبال کر ٹھنڈہ کرکے پئیں، جنک فوڈس کے استعمال کو زہر سے تعبیر کرتے ہوئے ڈاکٹر ایم اے حمید نے کہا کہ اس سےسمیت غذاء (فوڈ پوائزن) کا اندیشہ رہتا ہے۔

بچوں کیلئے اگر ماسک پہننے کی بات کی جائے تو بچوں کیلئے ماسک کے استعمال سے متعلق گزشتہ ہفتہ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رہنمایانہ خظوط کے مطابق 5 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو ماسک پہناے کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم  6 سال سے 11 سال تک کی عمر کے بچے 12 سال اور اس سے زائد عمر کے بچوں کو والدین کی نگرانی میں ماسک کا استعمال کرنا چاہئے۔

دوسری جانب دو دن قبل ڈائرکٹرتلنگانہ پبلک ہیلتھ ڈاکٹر جی سرینواس راؤ کی شکایت پر حیدرآباد کے سلطان بازار پولیس اسٹیشن میں ڈاکٹر پرچوری ملک کے خلاف ایک کیس درج رجسٹر کرلیا گیا ہے۔

ڈاکٹر پرچوری ملک کے خلاف ڈائرکٹرتلنگانہ پبلک ہیلتھ ڈاکٹر جی سرینواس راؤ نے شکایت درج کروائی ہے کہ ڈاکٹر پرچوری ملک نے ٹی وی مباحث کے دؤران کوروناوائرس کی تیسری لہر سے متعلق غلط اور بے بنیاد انکشافات کے ذریعہ ٹی وی چیانل کے ناظرین کو بتایا کہ کوروناوائرس کی آنے والی تیسری لہر سے ہر گھر میں ایک موت واقع ہوگی اور کورونا مریض کی نعش مسخ شدہ ہوجائے گی۔

شکایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر کوروناوائرس کے ماہر نہیں ہیں اس طرح ان کے غلط اور بے بنیاد بیان سے عوام میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔

حالانکہ کورونا وباء سے پیدا شدہ صورتحال پر ہائی کورٹ بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور حکومت تلنگانہ اس وباء پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

ایسے میں موجودہ صورتحال میں ڈاکٹر پرچوری ملک کی جانب سے ٹی وی چیانل پر لاپرواہ انداز میں بلاکسی شواہد کے اس قسم کا بیان دینے سے عوام تشویش کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ اس وباء سے متعلق آنے والی کسی بھی لہر کے بارے میں واضح طورپر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا کہ گزشتہ ہفتہ ڈائرکٹر آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (ایمس) دہلی ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے پریس کانفرنس میں چند حوالوں کیساتھ یہ اطمینان بخش انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان یا بین الاقوامی سطح پر ایسے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ کوروناوائرس کی تیسری لہر میں بچے شدید طور پر متاثر ہوں گے انہوں کہا کہ یہ قیاس غلط اطلاعات اور جھوٹ پر مبنی ہے اور ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

ڈاکٹرگلیریانے کہا کہ ہندوستان میں کوروناوائرس کی دوسری لہر کے دؤران 60 تا 70 فیصد بچے جو انفیکشن میں مبتلا ہو کر اسپتالوں میں داخل ہوئے تھے ان میں قوت مدافعت کم تھی جبکہ صحتمند بچے معمولی بیماری میں مبتلا ہوگئے جو کہ بناء کسی اسپتال میں شریک صحتمند ہوگئے۔

ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے کہا کہ وبائی امراض کی لہریں عام طور پر سانس کے وائرس کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ1918ء کے ہسپانوی فلو H1N1 (سوائن فلو) اس کی مثالیں ہیں۔ جس کی دوسری لہر سب سے بڑی تھی،جس کے بعد تیسری لہر تھوڑی چھوٹی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ کوویڈ قواعد پر سختی کیساتھ عمل کریں کیونکہ جب بھی کوویڈ معاملات میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور انسانی رویوں میں تبدیلی آتی ہے اور لوگ کوویڈ قواعد پرسختی سے عمل کرتے ہیں۔

لیکن جب لاک ڈاؤن میں نرمی یا اسے برخاست کیا جاتا ہے تو لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اب زیادہ انفکشن نہیں ہوگا اور وہ کوویڈ قواعد پر مناسب عمل نہیں کرتے اس کی وجہ سے یہ وائرس پھر سے معاشرہ میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے جوکہ ممکنہ طور پر ایک اور لہر کی طرف جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے