مسلمان، دلتوں اور قبائلیوں سے بھی پیچھے کیوں؟ : پروفیسر تھوراٹ ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سماجی و مذہبی گروپس کے موقف پر قومی سمینار

ریاستی خبریں قومی خبریں

مسلمان،دلتوں اور قبائلیوں سے بھی پیچھے کیوں؟: پروفیسر تھوراٹ
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سماجی و مذہبی گروپس کے موقف پر قومی سمینار
وائس چانسلر پروفیسرسید عین الحسن اور دیگر ماہرین کے خطابات

حیدرآباد: 26۔ستمبر
(سحرنیوزڈاٹ کام/پریس نوٹ)

مذہبی اقلیت مسلمان نوکریوں،اعلیٰ تعلیم،رہائش اور دیگر شعبوں میں دلت اور آدیواسیوں سے بھی پیچھے کیوں ہیں؟ ایس سی اور ایس ٹی طبقات کو تحفظات حاصل ہیں اور وہ تعلیم،نوکری اور دیگر تمام سماجی فوائد حاصل کرنے کے بہتر طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔خانگی شعبہ میں 80 فیصد ملازمتیں ہیں۔

مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم کے باوجود نوکریوں کے عدم حصول کے پیش نظر اکثر ایسے کورس کرتے ہیں جو مہارتوں پر مبنی (skill based)ہوں۔ جس سے انہیں روزگار حاصل کرنےمیں دشواری نہ ہو۔ان خیالات کااظہار پروفیسر سکھدیوتھوراٹ،صدرنشین،انڈین انسٹیٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز و سابق صدرنشین یو جی سی نے شعبہ معاشیات اورانڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز (آئی آئی ڈی ایس)،راکسا لگزمبرگ جنوبی ایشیاءکے اشتراک سے ایک روزہ قومی سمینار”بھارت 75@ اور ہندوستان میں سماجی-مذہبی گروپس کے موقف“میں آن لائن کلیدی خطبہ دیتےہوئے کیا۔ ڈیموکریسی 2022 پر ڈائیلاگ سیریز کےتحت یہ دوسرا ڈائیلاگ ہے۔پروفیسر سیدعین الحسن،وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) نے صدارت کی۔

 

وائس چانسلر پروفیسر سیدعین الحسن نے کہا کہ اردو یونیورسٹی مساوی اورشمولیتی ترقی کے امکانات کی تلاش میں رہی ہے۔ہمارے یہاں ہونے والے سمینار،کانفرنسیں اور سمپوزیم اس کے گواہ ہیں۔پروفیسر تھوراٹ کا ہمارے بیچ ہونا پروگرام کی کامیابی کی ضمانت ہے۔پروفیسر تھوراٹ کے تعاون سے یونیورسٹی میں کئی شعبے قائم ہوئے۔

پروفیسر تھوراٹ نے مختلف گروہوں کےساتھ امتیاز کےمتعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ درج فہرست طبقات،اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ کئی طرح کے امتیازات روا رکھے جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اردو یونیورسٹی میں مسلمانوں کی پسماندگی پرتحقیق ہونی چاہیے۔ایس سی و ایس ٹی کے متعلق پالیسیاں پہلے سے تھیں۔1991 میں بودھ ایس سیز کو وی پی سنگھ کے دورِ حکومت میں تحفظات فراہم کیے گئے۔2000ءٰ میں دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے متعلق پالیسی کی تدوین ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ایس سی میں سطح غربت 29 فیصد ہے۔جبکہ یہ اعلیٰ ذاتوں میں محض 9 فیصد ہے۔

جناب توقیر علی صابری،روکسا،لکزمبرگ،جنوبی ایشیاء نے مانو سے مزید پروگرامس میں اشتراک کی خواہش ظاہر کی۔انہوں نے کہا کہ وہ جرمن یونیورسٹیوں میں یہاں کے طلبہ کو پی ایچ ڈی و پوسٹ ریسرچ فیلو شپ دلانے کی کوشش کریں گے۔پروفیسر فریدہ صدیقی،ڈین اسکول برائےفنون و سماجی علوم و کوآرڈینیٹر سمینار نے خیر مقدم کیا اور سمینار کے موضوع کا تعارف کروایا۔جناب جی سی پال،ڈائرکٹر آئی آئی ڈی ایس نے بھی خطاب کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر خواجہ محمد ضیاءالدین،اسسٹنٹ پروفیسر سماجیات کی کتاب”ریڈنگ مینارٹیز ان انڈیا: فارمز اینڈ پرسپیکٹیو(ہندوستان میں اقلیتوں کا مطالعہ:اشکال اور نکاتِ نظر)“ کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین نے کاروائی چلائی،پروفیسر سکھدیو تھوراٹ کا تعارف پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر ونود مشرا،آئی آئی ڈی ایس بھی شہءنشین موجود تھے۔

پہلےتکنیکی سیشن میں پروفیسرونودجئے رتھ،سابق پروفیسر سماجیات،یونیورسٹی آف حیدرآباد کی صدارت میں پینل مباحثہ منعقد ہوا۔پروفیسراسیم پرکاش، ٹی آئی آئی ایس،حیدرآباد،ڈاکٹر پرشانت کین،ایفلو،ڈاکٹر آر تھرونسکرسو،یونیورسٹی آف حیدرآباد نے حصہ لیا۔ڈاکٹر اے ناگیشور راؤ،شعبہ سیاسیات، ماڈریٹر تھے۔

دوسرے تکنیکی سیشن”مذہبی اقلیتوں کا موقف“ کا پروفیسر دانش معین کی صدارت میں انعقاد ہوا۔پروفیسر تنویر فضل،سماجیات،ایچ سی یونے "آزادی سے قبل مسلمانوں کے حالات” پر اظہار خیال کیا۔پروفیسر عامر اللہ خان،سی ڈی پی پی نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ”کیوں مسلمان آہستہ آہستہ او بی سی،ایس سی اور ایس ٹی سےبھی زیادہ پیچھے ہوتےجارہے ہیں؟۔ایسا کیوں ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ محرومی کا شکارہورہے  ہیں؟ کیا اس کی وجہ ہندوستان میں دیگر برادریوں کو تحفظات ہے یا مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی ہے”؟۔ڈاکٹر صلاح پناتھل،ایچ سی یو نے بھی حصہ لیا۔ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین ماڈریٹر تھے۔

تیسرے سیشن میں پروفیسر سکھدیوتھوراٹ کی صدارت میں ڈاکٹرشبانہ کیسر،ویمن اسٹڈیز،مانو،جناب مدھو چندرا،آل انڈیا کرسچن کونسل،جناب اے صابری اور ممتازسماجی سائنسداں پروفیسر کانچا ایلیا،سابق ڈائرکٹرسیسیپ،مانو پینل کاحصہ تھے۔ڈاکٹر ونود کمارمشرا،آئی آئی ڈی ایس اور ڈاکٹرعبدالطہٰ، سیسیپ مانوماڈریٹر تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے