ڈاکٹر ریکھا کرشنن کی جانب سے کلمہ شہادت کی ادائیگی کے دؤران مسلم خاتون مریض نے لی آخری سانس

بین الاقوامی خبریں قومی خبریں

ڈاکٹر ریکھا کرشنن کی جانب سے کلمہ شہادت کی ادائیگی کے دؤران مسلم خاتون مریض نے لی آخری سانس

کیرالا/تھرواننتاپورم :22۔مئی(سحرنیوز ڈاٹ کام)

ملک میں گزشتہ چند سال سے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف مذہبی منافرت کو ہر پلیٹ فارم سے ہوا دی گئی اور کورونا وائرس کی جاریہ وباء کی دوسری لہر کے دؤران بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے!

ایسے میں ایک ہندو خاتون ڈاکٹر نے ہسپتال میں زیر علاج ایک کوویڈ سے متاثرہ مسلم خاتون کے آخری لمحات کے دؤران کلمہء شہادت ادا کرتے ہوئے انسانیت کا پرچم بلند کیا ہے۔سوشیل میڈیا پر اس ہندوخاتون ڈاکٹر کی ہرطرف سے ستائش کی جارہی ہے۔

Photo Courtesy: Twitter Hashtag

ڈاکٹر ریکھا کرشنن پالکڑ ، کیرالا کے ایک خانگی ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں جہاں کوویڈ سے متاثر ایک 56 سالہ مسلم خاتون کو دو ہفتہ قبل داخل کروایا گیا تھا۔اور یہ خاتون وینٹی لیٹر پر تھیں کوویڈ قواعد کے باعث اس خاتون کیساتھ انکے خاندان کے کسی بھی فرد کو ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔

17مئی کو ہسپتال میں زیر علاج اس مسلم خاتون کی صحت مزید بگڑ گئی اور جسم کے مختلف اعضاء نے کام کرنا بند کردیا جس کے بعد ڈاکٹرس نے فیصلہ کیا کہ اس خاتون کو وینٹی لیٹر سپورٹ سے ہٹالیا جائے۔اور اس کی اطلاع مسلم خاتون کے افراد خاندان بھی دی گئی۔

یہ خاتون مریض ڈاکٹر ریکھاکرشنن کی نگرانی میں تھیں مریض کی طبیعت بہت ہی زیادہ خراب ہونے اور انکے آخری لمحات میں مسلم خاتون کو کسی شکل میں تسکین فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے اس خاتون مریض کے سرہانے آہستہ سے کلمہ شہادت ” لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا وِرد شروع کردیا۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت وہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے سوچ رہی تھیں۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے خلیج ٹائمز کو فون پر بتایا کہ اس وقت میں اس خاتون کی کسی بھی قسم کی مدد سے قاصر تھی اور خود کو بے بس محسوس کررہی تھی میری جگہ اگر اس وقت اس خاتون کی بیٹی یا کوئی اور رشتہ دار ہوتے تو ان کا بھی یہی عمل ہوتا جو میں نے کیا ۔ ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے کہا کہ جب انہوں نے کلمہ شہادت کا ورد شروع کیا تو بے چین اس مسلم خاتون مریض نے اطمینان کیساتھ اپنی آخری سانس لی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت ایک احساس ہوا کہ کوئی طاقت ہے جو مجھے اس وقت کلمہ شہادت پڑھنے کیلئے کہہ رہی ہے۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے بتایا کہ دوبئی میں قیام کے دؤران انہوں نے کلمہء شہادت سیکھا تھا اور مسلمانوں کے مذہبی رواج سے واقف بھی ہوئی تھیں

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ ان کی پیدائش کیرالا میں ہوئی تاہم وہ دوبئی میں پلی اور بڑھیں ،ان کی اسکولی تعلیم انڈین ہائی اسکول دوبئی میں ہوئی ان کے والدین اور دیگر رشتہ دار دوبئی میں ہی رہائش پذیر ہیں اور وہ تنہا اپنی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل اور یہیں منتقل ہونے کی غرض سے کیرالا آگئیں۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے بتایا کہ ان کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں جو کیرالا ہی کے تھریسور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر ریکھا کرشنن کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہیں جو ان دنوں تعطیلات میں اپنے نانا ، نانی کے پا س دوبئی میں ہیں۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے کہا کہ متحدہ عرب امارات (دوبئی) کے ساتھ میرا مضبوط رشتہ ہے وہ میرے دوسرے گھر کی طرح ہے۔میرے والدین نے ہمیشہ مجھے تمام مذاہب کا احترام کرنا سکھایاہے۔ جب میں دبئی کے برج مندر میں پوجا کیلئے جاتی تو میرے والدین نے مجھے مساجد میں منعقدہ دعاؤں کا اعتراف کرنا اور مثبت توانائی سے فائدہ اٹھانا سکھایا تھا۔دوبئی میں میری پرورش ایک غیر معمولی بات تھی جہاں مجھے میرے مذہب اور مذہبی کلچر پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے کہا کہ ہندوستانی اور اسلامی ثقافت ایک ہی ہے کہ دوسروں کا احترام کرو۔
انہوں نے کہا کہ دوبئی میں مسلمانوں کی جانب سے جو مجھے باہمی احترام حاصل ہوا ہے شاید میری جانب سے مذہب اسلام کے گہرے احترام کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔

ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے کہا کہ کوویڈ کی دوسری لہر کے دؤران ہندوستان میں ہیلتھ ورکرس اپنی خدمات کیساتھ ساتھ مریضوں کے افراد خاندان کی طرح بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔کیونکہ کوویڈ سے متاثرہ زیر علاج مریض کیساتھ کسی کو بھی رہنے کی اجازت نہیں ہوتی جیسا کہ دیگر امراض کے علاج کے وقت خاندان کا کوئی فرد تیمارداری کیلئے ساتھ رہتا ہے۔

دراصل اس سارے واقعہ کا تذکرہ ڈاکٹر ریکھا کرشنن نے اپنے ساتھی ڈاکٹر مصطفی سے کیا تھا جنہوں نے اس واقعہ کو فیس بک پر شیئر کردیا وہاں سے یہ پوسٹ وائرل ہوگیا جسکے بعد ڈاکٹر ریکھا کرشنن کی سوشیل میڈیا اور میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس سے سراہنا کی جارہی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے