کوروناوائرس کی تیسری لہر میں بچوں کے متاثر ہونے کا قیاس غلط اور جھوٹ پرمبنی
عالمی اور ملکی سطح پر ایسے کوئی ثبوت نہیں،ڈائرکٹر ایمس ڈاکٹر رندیپ گلیریا کا بیان
نئی دہلی:9۔جون(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)
ملک میں جاری کوروناوائرس کی دوسری لہر کے دؤران چند گوشوں سے زور و شور کیساتھ بناء کی مصدقہ ذرائع سے ایسی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ کوروناوائرس کی تیسری لہر میں سب سے زیادہ بچے متاثرہونگے اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔
ایسی اطلاعات اور قیاس آرائیاں یقیناً والدین کیلئے انتہائی خوف اور فکر کا باعث ہی ہونگی۔
ایسے میں ڈائرکٹر آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (ایمس) دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے چند حوالوں کیساتھ یہ اطمینان بخش انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان یا بین الاقوامی سطح پر ایسے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ کوروناوائرس کی تیسری لہر میں بچے شدید طور پر متاثر ہوں گے انہوں کہا کہ یہ قیاس غلط اطلاعات اور جھوٹ پر مبنی ہے اور ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
منگل کے دن دہلی میں کوروناوائرس کی موجودہ صورتحال پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ڈائرکٹر آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس(ایمس) دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے کہا کہ ہندوستان یا عالمی سطح پر ایسے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اس کے بعد آنے والی لہروں میں بچے شدید طور پر متاثر ہوں گے۔
ڈاکٹرگلیریا نے کہا کہ 60 سے 70 فیصد بچے ، جو انفیکشن میں مبتلا ہو گئے تھے اور ہندوستان میں دوسری لہر کے دوران اسپتالوں میں داخل ہوگئے تھے ان میں قوت مدافعت کم تھی جبکہ صحتمند بچے معمولی بیماری میں مبتلا ہوگئے جو کہ بناء کسی اسپتال میں شریک صحتمند ہوگئے۔
ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وبائی امراض کی لہریں عام طور پر سانس کے وائرس کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ1918ء کے ہسپانوی فلو H1N1 (سوائن فلو) اس کی مثالیں ہیں جس کی دوسری لہر سب سے بڑی تھی،جس کے بعد تیسری لہر تھوڑی چھوٹی تھی۔
انہوں نے کہا جب ایک حساس آبادی ہو تو متعدد لہریں رونما ہوتی ہیں اور جب آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ قوت مدافعت کے ذریعہ اس انفیکشن پر قابو پالیتا ہے تو یہ وائرس اختتام کے قریب اور موسمی ہو جاتا ہے جیسے H1N1 (سوائن فلو) جو عام طور پر مانسون یا سردیوں کے دوران پھیلتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ کوویڈ قواعد پر سختی کیساتھ عمل کریں کیونکہ جب بھی کوویڈ معاملات میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور انسانی رویوں میں تبدیلی آتی ہے اور لوگ کوویڈ قواعد پرسختی سے عمل کرتے ہیں۔
لیکن جب لاک ڈاؤن میں نرمی یا اسے برخاست کیا جاتا ہے تو لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اب زیادہ انفیکشن نہیں ہوگا اور وہ کوویڈ قواعد پر مناسب عمل نہیں کرتے اس کی وجہ سے یہ وائرس پھر سے معاشرہ میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے جوکہ ممکنہ طور پر ایک اور لہر کی طرف جاتا ہے۔