کوروناوائرس کی وبا کا منّے گوڑہ کے آم کے باغات پر بھی اثر ، آم کے تاجروں کو نقصان کا سامنا
وقارآباد/تانڈور: 09۔مئی (سحرنیوزڈاٹ کام/خصوصی رپورٹ)
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور یہ قومی پھل کی حیثیت بھی رکھتا ہے یہ مؤسمی پھل ہر طبقہ کی اولین پسنداور اسکی قوت خرید میں شامل ہوا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آم انسانی صحت کے لیے مفید ہے اور یہ دل اور معدے کے امراض کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے آم کے استعمال سے انسانی جسم میں خون بننے میں اور اس سے پیٹ کی بیماریاں ختم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔اس کا جوس جسم کو طاقت پہنچاتا ہے علاوہ اسکے کچے آم چٹنیاں،اچاراور آمچور بھی بنائے جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں ایک بار مشہو رشاعرمرزا غالب ؔگلی میں بیٹھے آم کھارہے تھے انکے ساتھ ایک ایسے دوست بھی بیٹھے تھے جن کو آموں سے ذرہ برابر بھی ر غبت نہیں تھی اتنے میں ایک گدھا آیا، مرزا غالب نے آم کے چھلکے اس کے سامنے رکھ دئے مگر اس گدھے نے صرف ان کو سونگھا اور آگئے بڑھ گیا، مزرا غالب کے دوست نے طنزیہ کہا، دیکھ لو گدھا بھی ایسی چیزوں کو نہیں کھاتا ،مرزا غالب نے ہاتھ میں پکڑے آم کو مزے سے چوستے ہوئے بڑی اطمینان سے جواب دیا”گدھا آم نہیں کھا تاـ”۔
آم کی پیداوار میں ہندوستان اول نمبر پر ہے جہاں 1,600,000 ؍ ہیکٹر س آم کی فصل کی جاتی ہے یوں تو آم کی کئی اقسام ہیں لیکن الفانسو، الماس، انور رٹول،بادام ،بنگن پلی ،بیگم پسند،ثمر بہشت ،دسہری ،سرولی، سفیدہ،سند ھڑی ، سہارنی ، سیندوریا ، طوطا پری،فجری،لال پری،لنگڑا،مالدا،نیلم،پرنس، چونسہ اورگولا عوامی مقبولیت رکھتے ہیں ۔
حیدرآباد سے 70؍کلومیٹر اور وقارآباد سے 10؍کلومیٹر کے فاصلہ پر مؤجود منے گوڑہ میں سینکڑوں ایکڑ اراضی پر آم کی کاشت کی جاتی ہے اور یہاں کئی آم کے مشہور باغات ہیں جہاں سے آم حیدرآباد کی مارکیٹس میں فروخت کیلئے روانہ کئے جاتے ہیں اور ساتھ ہی آم کے مؤسم میں منے گوڑہ پر ہی کئی ایک دکانات آم کی فروخت کیلئے لگائی جاتی ہیں۔
جہاں روزآنہ صبح سے نصف شب کے بعد تک آم کے خریداروں کا ہجوم دیکھا جاتا تھا اور بیجاپور ۔ حیدرآباد اس قومی شاہراہ پر مؤجود منے گوڑہ سے آم خرید کر شائقین آم ملک کے دیگر مقامات تک لے جایا کرتے تھے جبکہ حیدرآباد کے شائقین آم خود کیلئے اور اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب کو تحفہ کے طور پر دینے کیلئے آم یہاں سے بڑی تعدادمیں خرید کر لے جایا کرتے تھے۔
تاہم گزشتہ سال کورونا وائرس کے آغاز، پھر لاک ڈاؤن اور جاریہ سال کورونا وائرس کی دوسری لہر کا آغاز اور ریاست میں رات کے کرفیو کے نفاذ کے باعث منے گوڑہ کی آم کی دُکانات اور بیوپاریوں کے چہروں سے رؤنق غائب ہوگئی ہے!
دوسری جانب گزشتہ سال زیادہ بارش اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے آم کے تاجروں کو شدید نقصان پہنچاتھا اس سلسلہ میں جاریہ سال آموں کی فصل کے تعلق سے آم کے تاجروں نے بتایا کہ انہیں گزشتہ سال بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا کیونکہ لوگ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گھروں میں ہی محدود رہ گئے تھے ۔یاد رہے کہ 2019ء میں ناکافی بارش کے باعث آم کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تھی جس سے مارکیٹ میں آم، عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگیا تھا۔
( ویڈیو )
تاجروں نے بتایا کہ اس سال بہتر بارش ہوئی ہے اور بازار بھی کھلے ہیں یہ سوچ کر ہم نے فصل کے موقع پر آم کے باغات خریدے ہیں اور اس سال فصل بھی بہتر ہوئی ہے لیکن کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے فصل اچھی ہونے کے باوجود بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ حیدرآباد کے علاوہ دیگر علاقوں کو بھی یہاں سے آم روانہ کیا جاتا ہے۔
لیکن موجودہ حالات میں آم کی منتقلی ممکن نہیں ہے اور مارکیٹ کی قیمتوں میں بھی کافی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان تاجروں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے طوفانی ہواؤں اور بارش کی وجہ سے بھی آم کی فصل کو نقصان ہورہا ہے اور آم شاخوں سے ٹوٹ کر گررہے ہیں ان تاجروں نے منے گوڑہ کے اطراف و اکناف کے علاقے میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر آم کے باغات پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں مختلف اقسام کے مشہور آموں کی فصل ریاست تلنگانہ اورسارے ملک میں مشہور ہے۔