دہلی کے جنتر منتر پرمسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے،ویڈیو ہوا وائرل
چاروں طرف سے سخت مذمت،دہلی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج
نئی دہلی :09۔اگست(سحرنیوزڈاٹ کام/ایجنسیز)
ملک کی راجدھانی دہلی کا اہم علاقہ جنتر منتر کل اتوار کے دن مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکیوں بھرے نعروں سے گونج اٹھا دراصل یہ نعرے سابق ترجمان دہلی بی جے پی و سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے کی جانب سے منعقدہ بھارت جوڑو موومنٹ مارچ کے دوران لگائے گئے۔
اس مارچ میں مسلمانوں کے خلاف لگائے گئے نفرت آمیز نعروں ” مُلّے کاٹے جائیں گے،رام رام چلائیں گے ” ، ” ہندوستان میں رہنا ہوگا،تو جئے شری رام کہنا ہوگا ” پرمشتمل ویڈیوس سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے ہیں اور چاروں طرف سے ان نفرت انگیز نعروں کی مذمت کی جارہی ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایسے نعرے لگانے والوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔
دہلی کے جنتر پر لگائے گئے نفرت انگیز نعروں کا ویڈیو جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔
ये ना अफ़ग़ानिस्तान है
ना तालिबानये राजधानी दिल्ली है
भारत की संसद से कुछ दूर संसद मार्ग थाने का इलाक़ा,जहां खुलेआम नारे लग रहे हैं-
जब मुल्ले काटे जाएँगे
राम राम चिल्लाएँगेये देश तबाही की तरफ़ है
निःशब्द हूँ ये सब देख कर
Vid @ImAmmuChoudhary https://t.co/XuRvlLMv8E— Vinod Kapri (@vinodkapri) August 8, 2021
جبکہ اس مارچ کے منتظم اشونی اپادھیائے نے ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو میں کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ایسے نعرے کس نے لگائے ہیں اور وہ کون لوگ تھے ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے جانے کے بعد یہ نعرے لگائے گئے ہیں اور دعویٰ کیا کہ یہ ان کے بھارت جوڑو موومنٹ کو بدنام کرنے کی سازش ہے انہوں نے ویڈیو کی جانچ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ کوویڈ گائیڈ لائن کی دھجیاں اڑانے والے ا س بھارت جوڑو مارچ میں دس سالہ بچے بھی شامل تھے جواپنے ہاتھوں میں اسلام کا وِناش نامی پرچے اٹھائے ہوئے تھے اور اس مارچ کے دوران نیشنل دستک کے رپورٹر انمول کو جئے شری رام کے نعرے لگانے کے لیے زبردستی کی گئی ، جبکہ انمول خود ہندو ہیں!! اس سلسلہ میں صحافی بھی اس نفرت انگیز مارچ کی سخت مذمت کررہے ہیں۔
جبکہ جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کو ملک دشمن سرگرمیوں کے اڈوں کے طور پر پیش کرنے والا میڈیا کا وہ گوشہ ملک کے دارالحکومت دہلی کے قلب میں جنتر منتر پر مسلمانوں کی نسل کشی پر اکسانے والے ان نعروں پرہمیشہ کی طرح اپنے منہ میں دہی جماکر خاموش بیٹھا ہوا ہے! ان کے چینلوں پر اس سے متعلق نہ کوئی خبر ہے اور نہ ہی پرائم ٹائم میں گھنٹوں کی بحث ہی کی جارہی ہے!! جبکہ چند ناسمجھ مسلمانوں کی چھوٹی سی بھی غلطی یا خود اپنی جانب سے تیار کیے گئے نفرت انگیز مواد پر یہ چینلس گھنٹوں بحث کے ذریعہ ہندو۔مسلم منافرت پھیلاتے رہتے ہیں!!
دیپک یادو ڈی سی پی نئی دہلی نے خبررساں ادارے اے این آئی سے کہا ہے کہ اس مارچ کی پولیس سے اجازت نہیں لی گئی تھی اور بتایا جارہا ہے کہ اس مارچ کے دوران نفرت انگیز نعرے لگائے گئے ہیں اور وہ ویڈیو دہلی پولیس کو بھی موصول ہوا ہے۔
ڈی سی پی دیپک یادو نے کہا ہے اس سلسلہ میں ایک ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ جبکہ ٹوئٹر پر کئی افراد نے ان لوگوں کی تصاویر کو ویڈیو سے کیاپچر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم پولیس کا کام آسان کررہے ہیں کہ یہ وہی چہرے ہیں جنہوں نے نفرت انگیز نعرے لگائے ہیں۔
People who had gathered there had no permission. It has come to our notice that some people raised inciting & objectionable slogans. We also received a video. We've registered FIR&we're carrying out further investigation. Necessary action will be taken: DCP New Delhi Deepak Yadav pic.twitter.com/rHFLLuyGKA
— ANI (@ANI) August 9, 2021
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کی رہائش گاہ سے 20 منٹ کے فاصلہ اور پارلیمنٹ کی عمارت سے چند میٹر کی دوری پر موجود جنتر منتر پر اتنا بڑا مجمع کیسے جمع ہوا اور کس طرح اس نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اکسانے والے نعرے لگائے؟ کیا وہاں پولیس فورس موجود نہیں تھی؟
بعد ازاں آج رات دیرگئے دہلی پولیس نے کہا ہے کہ کل کے جنتر منتر واقعہ میں اشونی اپادھیائے اور دیگر ملوث ہیں اور دہلی پولیس جلد ہی انہیں گرفتار کرے گی دہلی پولیس نے کہا ہے کہ کسی کو بھی پرامن ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
Ashwani Upadhyay and others involved in yesterday’s incident to be arrested. Delhi Police is handling the matter as per law and any communal disharmony will not be tolerated: Delhi Police pic.twitter.com/Hsydk30MaN
— ANI (@ANI) August 9, 2021
یاد رہے کہ دو دن قبل ہی اسی طرح کے نوجوانوں کا ایک گروپ دہلی کے دوراکا علاقہ میں زیر تعمیر حج ہاوس کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھی اشتعال انگیز نعرے لگا چکا ہے اس حج ہاوس کی تعمیر کے لیے سابق وزیراعلیٰ دہلی آنجہانی شیلا ڈکشٹ نے سنگ بنیاد رکھا تھا اور موجودہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے 100 کروڑ روپئے جاری کیے ہیں۔
اس زیر تعمیر حج ہاوس کے روبرو احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور حج ہاؤس کے بجائے دہلی حکومت اسکول ،ہسپتال یا مندر تعمیر کرے اور نعرہ لگایا گیا تھا کہ ” یہ بھومی ہماری ہے ،اس کا فیصلہ ہم کریں گے "۔
جنتر منتر پر چند دنوں سے ملک میں نفرت انگیز بیانات دینے والے پجاری نرسنگھانند سرسوتی کی موجودگی میں یہ اشتعال انگیزنعرے لگائے گئے۔
صدر کل ہند مجلس اتحادالمسلمین و رکن پارلیمان حیدرآبادبیرسٹر اسدالدین اویسی نے اس معاملہ کو لوک سبھا میں اٹھاتے ہوئے سخت مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ جنتر منتر پر مسلمانوں کی نسل کشی پر مشتمل نعرے لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اس سلسلہ میں بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اپنے ٹوئٹس میں کئی سوال اٹھائے ہیں کہ آخر ان نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کیوں این ایس اے کے تحت کارروائی نہیں کی جاتی؟
पिछले जुम्मे को द्वारका में हज हाउस के विरोध में एक 'महापंचायत' बुलाई गई। हस्ब-ए-रिवायत, इस पंचायत में भी मुसलमानों के खिलाफ़ पुर-तशद्दुद् नारे लगाए गए। जंतर मंतर मोदी के महल से महज़ 20 मिनट की दूरी पर है, कल वहाँ "जब मुल्ले काटे जाएंगे…" जैसे घटिया नारे लगाए गए। 1/n
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) August 9, 2021
आख़िर, इन गुंडों की बढ़ती हिम्मत का राज़ क्या है? इन्हें पता है कि मोदी सरकार इनके साथ खड़ी है।24 जुलाई को भारत सरकार ने रासुका (NSA) के तहत दिल्ली पुलिस को किसी भी इंसान को हिरासत में लेने का अधिकार दिया था। फिर भी दिल्ली पुलिस चुप चाप तमाशा देख रही है। 3/n
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) August 9, 2021
دوسری جانب صدر جمعیتہ علماء ہند مولانامحمود مدنی نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دہلی پولیس کمشنر اور دیگر پولیس عہدیداروں کو مکتوب ارسال کرتے ہوئے جنتر منتر پر مسلمانوں کے خلاف منافرت انگیز نعرے لگانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جبکہ جنرل سیکریٹری جمعیتہ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں ایک وفد نے نئی دہلی رینج کے جوائنٹ کمشنر جسپال سنگھ اور ڈی سی پی دیپک یادو سے ملاقات کرتے ہوئے اس مکتوب کی ایک نقل حوالے کی جس میں لکھا گیا ہے کہ کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی پرمشتمل یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہورہا ہے اور اس سے ملک کے امن پسند افراد اور مسلم اقلیت کو سخت تکلیف پہنچی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف جلد کارروائی کی جائے۔اس وفد میں محمد مبشر اور مولانا عظیم اللہ صدیقی شامل تھے۔
جنتر منتر پرمسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض اور نفرت انگیز نعرلگائے جانے کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمس بالخصوص ٹوئٹر پر تمام امن پسند افراد کی جانب سے سخت مذمت کی جارہی ہے اور باقاعدہ ” #ArrestAshwiniUpadhyay ” مہم چلائی جارہی ہے۔