
زندگی اس قدر غیر یقینی ہے کہ ہنستے مسکراتے چہرے کو کب خاک میں دفن کردے پتہ ہی نہیں چلتا، کبھی کبھار کسی کی موت کی خبر سنو تو دل بس یہی دعائیں مانگنے لگتا ہے کہ کاش کوئی آ کر کہہ دے کہ افواہ تھی، یا مرنے کی خبر جھوٹی تھی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، جانے والا چلا جاتا ہے، اور اپنے پیچھے بہت سی ان کہی داستانیں چھوڑ جاتا ہے۔
دانش صدیقی صاحب بھی چلے گئے، سب کو جانا ہے، کوئی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا ہے، مگر جس عمر میں وہ گئے ہیں، وہ جانے کی عمر نہیں تھی، اور وہ گئے بھی کہاں ہیں، وہ تو پہونچائے گئے، کچھ خون آشام درندوں نے ان کا خون پیا ہے، کچھ اقتدار و طاقت کے حریص لوگوں نے ان کے جسم میں بارود کا زہر بھرا ہے۔

صدیقی صاحب کو میں نہیں جانتا تھا، اور وہ تو مجھے قطعی نہیں جانتے تھے، لیکن ان کی موت پر آج مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میرا اپنا کوئی چلا گیا ہو، حقیقی ٹیلنٹ جب وقت سے پہلے کھو جائے تو دکھ کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے۔
دانش صاحب بغیر کسی شک و شبہ کے ساؤتھ ایشیا کے بیسٹ فوٹوگرافر تھے، اکیلے ان کی تصویریں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہوا کرتی تھی، کوئی ایک تصویر تھی ان کی جو بہت زیادہ وائرل ہوئی، میرے اندر کی جگیاسا جاگی، مجھے لگا کہ جاننا چاہئے کہ آخر کون ہے وہ جس کی تصویر بولتی ہے، ساری کہانی کہہ جاتی ہے۔ تلاش شروع ہوئی، رائٹرس کا ٹیگ لگا ہوا تھا، پتہ چلا کہ یہ تصویریں دانش صاحب کھینچتے ہیں، بہت خوشی ہوئی کہ اپنی قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو محض ایک تصویر سے دنیا کو ہلا سکتے ہیں۔

جب جامعہ میں پستول لہراتا ہوا ایک بھکت نکلا، تو ان کے کیمرے کی نظر سے ہم نے ایک وحشی درندہ دیکھا، جب کئی لوگ مل کر ایک معصوم پر حملہ کررہے تھے، اور وہ اپنے سر کو زمین میں چھپانے کی ناکام کوشش کررہا تھا، تب ہم نے ان کی فوٹوگرافی میں انسانیت کو دیکھا،جو سسک رہی تھی، بلک رہی تھی، اور دھیرے دھیرے دم توڑ رہی تھی۔
دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا، تو انہیں کے کیمرے کا کمال تھا کہ دنیا کی نظریں اس فساد کی طرف مبذول ہوئیں۔

دانش صاحب نے کیمرے کو اپنا ہتھیار بنایا،اور اسی ہتھیار سے کورونا معاملے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا، چاہے وہ سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے ہتاش مزدوروں کی تصویریں ہوں، یا زبان حال سے بیچارگی اور بے کسی کی داستان بیان کرتی ہوئی ان کے عورتوں کی تصویریں، یا پھر شمشان گھاٹ پر انگنت جلنے والی لاشوں اور ان سے اٹھنے والی شعلوں کی تصویریں ہوں،جو اب کبھی ذہن سے محو نہیں ہونے والی ہیں۔

جب بھی کورونا کال کی تاریخ Document کی جائے گی، ان کی تصویروں کی بنا وہ تاریخ ادھوری ہوگی۔یہ تصویریں دانش صدیقی کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ اور شاید ان فوٹوز کی وجہ سے فوٹو صحافت کی دنیا میں انہیں ایک آئیڈیل کے طور بھی یاد رکھا جائے۔
دانش صدیقی اس دور کے مرد مجاہد ہیں کہ جس دور میں صحافت حکومت کی زرخرید غلام بن چکی ہے،اینکر نیوز روم میں بیٹھ کر مقتدرہ کی تلوے چاٹتے ہیں۔

سوال اور مزاحمت دونوں عنقا ہیں، گراؤنڈ رپورٹنگ کا کانسیپٹ ختم ہوچکا ہے، ایسے دور میں زمین پر اتر کر، جان کو ہتھیلی پر رکھ کر، جو کچھ ہورہا ہے اسے کیمرے کی قید میں کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔
دانش صاحب حقیقی معنوں میں ایک بہادر انسان تھے، تبھی تو افعانستان کا اسائنمنٹ ملا تو وہ وہاں پر کام کرنے کے لئے راضی ہوگئے،ورنہ وہ تو ایسا ملک ہے کہ جس کا نام سن کر ہی لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، کام کرنا تو دور کی بات ہے۔
بہتری کی تھوڑی بہت امید جو جگی بھی تھی، وہ بھی دانش صاحب کی موت کے بعد ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ کیا افغانستان کی پہاڑیاں کبھی استقرار بھی چاہیں گی؟

بہرحال رب دانش صاحب کی خطاؤں کو معاف کرے، اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، ہم نے حقیقی ہیرا کھو دیا ہے، یا یوں کہیں کہ دنیا نے وہ آنکھ کھودی ہے جس سے ظلم و جبر، سازش، بے کسی، حکومتی بے حسی دیکھا کرتی تھی تو شاید غلط نہ ہو۔

مضمون نگار :
عزیر احمد ۔ دہلی

