حسرت جے پوری : کچھ یادیں۔کچھ باتیں
جانے کہاں گئے وہ دن، چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے سے سن سائبا سن تک
2000 سے زائدفلمی گیت اور دو فلم فیئر ایوارڈ یافتہ
(25 ویں برسی پر خراج عقیدت)
مقبول زمانہ کئی فلمی نغموں کےخالق حسرت جے پوری کی پیدائش 15 پریل 1922ء کو راجستھان کے شہر جئے پور میں ہوئی ان کا اصل نام محمد اقبال حسین تھا۔انہوں نے اپنے نانا فدا حسین سے زانوئے ادب طئے کیا جو کہ ایک شاعر تھے۔حسرت جے پوری 1940ء میں تلاش معاش کے سلسلہ میں بمبئی آگئے اور مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ میں ماہانہ 40 روپئے کی تنخواہ پر ملازمت اختیار کرلی۔
5 ڈسمبر 1988ء کو میں نے اس وقت دہلی سے شائع ہونےوالے مشہور اسپورٹس میگزین اخبار نوجواں کےلیے حسرت جے پوری سے ان کی رہائش گاہ واقع کیلاش بلڈنگ،کھار، ممبئی میں پانچ گھنٹوں تک انٹرویو لیا تھا۔اس وقت حسرت جے پوری نے بتایا تھاکہ وہ بس کنڈاکٹر کی ملازمت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں اپنا کلام بھی سنایا کرتے تھے۔جبکہ اس وقت ایک فلمی رسالہ نے لکھا تھاکہ حسرت جے پوری اوپیرا ہاؤس کے پاس” ہو ا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا” گا گا کر دوپٹے فروخت کیا کرتے تھے.۔جسے حسرت جے پوری نے غلط بتایا تھا۔
اسی دوران ڈونگری میں پرتھوی راجکپور کی صدارت میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں حسرت جے پوری نے اپنی مشہور نظم "مزدور "سنائی جسے سن کر پرتھوی راجکپور بہت متاثر ہوئے اور مشاعرہ کے اختتام پر حسرت جئے پوری کو گلے لگاکر کہاکہ میرا لڑکا (راجکپور) فلم "برسات” بنا رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہیکہ تم اس میں بہترین گیت لکھوگے شاید حسرت جے پوری بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے اور فوری راجکپور سے جاملے۔
جسکے بعد فلم برسات سے پانچ نوجوانوں کی ٹولی ایک نئی پہچان کے ساتھ فلمی دنیا کے افق پر نمودار ہوئی اور کامیابی نے راتوں رات ان کے قدم چوم لئے یہ ٹولی تھی اداکار،فلمساز و ہدایت کار راجکپور، موسیقار جوڑی شنکر اور جئے کشن،گیت کار شیلندر اور حسرت جے پوری کی جو زائد از 40 سال تک یہ ٹولی فلمی دنیا میں دھوم مچاتی رہی اور شائقین کے دلوں پر راج کرتی رہی۔فلم برسات کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے دو گیت ” جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے ” اور ” چھوڑ گئے بالم، ہائے اکیلا چھوڑ گئے لکھے تھے۔
حسرت جئے پوری اور آر کے اسٹوڈیوز کی یہ جوڑی 1971ء میں موسیقار جوڑی کے شیلندر کی موت تک قائم رہی پھر اس سےقبل فلم میرا نام جوکر اور فلم کل، آج اور کل کی ناکامی کے بعدراجکپور نے جہاں موسیقار تبدیل کیے وہیں گیت کار بھی بدل دئیے۔راجکپور 1982 میں بنائی گئی اپنی فلم پریم روگ (رشی کپور،پدمنی کولہاپوری) کے گیت حسرت جے پوری سے لکھوانا چاہتےتھے لیکن راجکپور نے امیر قزلباش سے اس فلم کے گیت لکھوائے۔
حسرت جے پوری نے 55 سے زائد موسیقاروں کے ہمراہ کام کیازائد از 500 فلموں میں 2 ہزار سے زائد گیت لکھے۔حسرت جے پوری ایک لمبے عرصہ تک اپنے فلمی گیتوں کے ذریعہ شائقین کے کانوں میں اپنے نغمات، غزل،گیت اور گانوں کی شیرینی انڈیلتے رہے پیار،محبت،غم و الم،ہجر و وصال غرض انسانی زندگی کا ایسا کوئی جذبہ و پہلو نہیں جسے حسرت جے پوری نے اپنے نغمات میں سمویا نہ ہو۔
حسرت جے پوری کے لاتعداد گیت چل نکلے کئی فلمیں ہٹ ہوئیں جن میں برسات،آوارہ، شری 420، چوری چوری،سنگم،جس دیش میں گنگا بہتی ہے،میرا نام جوکر،تیسری قسم، دل اپنا اور پریت پرائی، آرزو،جنگلی،جانور،بلف ماسٹر، بدتمیز،پگلا کہیں کا،پرنس،سسرال،سورج،میرے حضور، دل ایک مندر، راجکمار، انداز، ہمالیہ سے اونچا، دھرتی اوربرہمچاری جیسی ان گنت فلمیں شامل ہیں۔1951ء میں حسرت جے پوری نے فلم ہلچل کے لیے اسکرین پلے بھی لکھا تھا۔
ایک لمبے عرصہ کے بعد 1982 میں راجکپور اپنے لڑکے راجیو کپور کو لیکر فلم رام تیری گنگا میلی بنا رہےتھے اس وقت راجکپور نے حسرت جے پوری سے خواہش کرتےہوئے اس فلم کےلیے ایک گیت لکھوایا تھا جبکہ اس فلم کی موسیقی اور دوسرے گیت موسیقار رویندر جین نے لکھے تھے تا ہم اس فلم کے لیے حسرت جے پوری کا لکھا ہوا گیت 1985ء کا سب سے سوپر ہٹ گیت ثابت ہواتھا۔جس کے بول تھے” سن سا ئبا سن،پیار کی دھن میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن۔”حسرت جے پوری کو فلمی گیت لکھنے میں شہرہ حاصل تھا بالخصوص فلموں کے ٹائٹل گیت وہ بہت خوب لکھتے تھے۔
بعدازاں راجکپور نے اپنی زندگی کی آخری فلم حنا (رشی کپور،زیبا بختیار)کے لیے حسرت جے پوری کو تین گیت لکھنے کی ذمہ داری دی تھی تاہم اس فلم کی تکمیل سے قبل راجکپور کادیہانت ہوگیا۔1991ء میں اس فلم کی ریلیز کے بعد اس وقت حسرت جے پوری نے الزام عائد کیا تھا کہ اس فلم کے موسیقار رویندر جین نے ان کے گیتوں کو ہٹاتے ہوئے اپنی دھن میں استعمال کرلیا۔!! دوران گفتگو حسرت جے پوری نے بتایا تھاکہ جب تک راجکپور بقید حیات تھے انہیں آر کے اسٹوڈیو کی جانب سے ماہانہ 500 روپئے روانہ کئے جاتے تھے لیکن راجکپور کے انتقال کے بعد یہ رقم بند کردی گئی۔

لندن کی ورلڈیونیورسٹی راؤنڈ ٹیبل نے حسرت جے پوری کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔1966ء میں فلم سورج کے گیت بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے پر حسرت جے پوری کو فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہواتھا جبکہ دوبارہ 1972ء میں راجیش کھنہ کی فلم انداز کے گیت ‘ زندگی ایک سفر ہے سہانہ یہاں کل کیا ہو کس نے جانا ‘ پر بھی حسرت جے پوری کو فلم فیر ایورڈ حاصل ہواتھا۔
وہیں حسرت جے پوری 1962ء میں فلم سسرال کے گیت تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے،1963ء میں فلم پروفیسر کے گیت اے گلبدن پھولوں کی مہک کانٹوں کی چبھن،کے لئے،1966ء ہی میں فلم آرزو کے گیت اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا،اور 1968ء میں فلم برہمچاری کے گیت دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے یادوں کو تیری میں دلہن بنا کے، کے لئے بھی فلم فیر ایوارڈ کے لیے نامزد کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ بھی حسرت جے پوری کو بہت سارے مختلف ایوارڈس حاصل ہوئے تھے۔
حسرت جے پوری نے دوران گفتگو بتایا تھا کہ انہوں نے 1965ء میں بنائی گئی رامانند ساگر کی فلم آرزو (راجندر کمار،سادھنا اور فیروز خان) کے پورے نغمے کشمیر میں قیام کرتے ہوئے لکھے تھے تاکہ فلم کی کہانی اور پس منظر کے مطابق ہوں۔اس فلم کے گیت "بے دردی بالماں تجھ کو میرا من یاد کرتا ہے” میں چنار کے درختوں، ڈل جھیل کا ذکر بھی موجود ہے۔اس فلم کے دیگر گیت بھی مشہور ہوئے تھے۔
افسوس کہ اپنی زندگی کے 55سے زیادہ قیمتی سال فلمی دنیا کو دینے والے حسرت جئے پوری اپنی زندگی کے آخری ایام میں فلمی دنیا میں ہی گمنام بن کر رہ گئے تھے۔ان کے بھانجے موسیقار انو ملک جو کہ موسیقار سردار ملک کے فرزند ہیں نے 1980ء کے دہا میں حسرت جے پوری سے کچھ نغمیں بھی لکھوائےلیکن وہ نئے دور سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپائے۔اس وقت حسرت جے پوری نے مجھ سے کہا تھا کہ انو ملک مجھے ننگا کرنا چاہتا ہے۔
حسرت جے پوری نے 1990ء کے دہا میں انیل کپور کی فلم لو میریج کے لئے ایک گیت لکھا تھاجس کے بول تھے "اپنا جیون ریل کی پٹری، ساتھ رہے اور مل نہ پائے، 1991ء میں بنائی گئی گووندہ کی فلم بھابھی کےلیے چاندی کی سائیکل، سونے کی سیٹ نغمہ لکھا تھا۔مزید چند گیت لکھنے کے بعد وہ خود کو مطمئین نہیں کر پائے۔
دوران گفتگو عامر خان کی مشہور فلم قیامت سے قیامت تک(1988ء)کے ایک نغمے کا مکھڑا دہراتے ہوئے حسرت جے پوری نے کہاتھاکہ مجروح سلطانپوری جیسے لوگ بھی اب ایسے گیت لکھنے لگے ہیں کہ” اکیلے ہم، اکیلے تم، مزا آرہا ہے قسم سے” اس وقت حسرت جے پوری نے پیش قیاسی کی تھی کہ دیکھنا مستقبل میں یہاں بھی ننگی فلمیں بنیں گی، شاید یہ پیش قیاسی درست ثابت ہوئی۔!!
حسرت جے پوری نے اپنے آخری ایام میں بھلے ہی بے روزگار رہ کر ہی سہی اپنی باقی ماندہ زندگی شان کے ساتھ گزاری ہو لیکن گھٹیا اور نچلی سطح کے گیت لکھ کر خود کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کی بھول کبھی نہیں کی یہ ان کا ظرف تھا۔حسرت جئے پوری کے فرزندان اختر حسرت جے پوری اور آصف حسرت جے پوری ممبئی میں رہتے ہیں جبکہ ان کی ایک دختر کشوار جے پوری پاکستان میں بیاہی گئیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ وہیں مقیم ہیں۔فیس بک پر وہ سرگرم ہیں ان کے فیس بک پیج بھی ہیں جہاں وہ اپنے والد حسرت جے پوری کی اور ان کی یادوں پر مشتمل تصاویر اور تفصیلات پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔

بالآخر طویل مدت کی علالت کے بعد جگر اور گردہ کے عارضہ کے باعث مشہور نغموں تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے(پگلا کہیں کا)،جانے کہاں گئے وہ دن(میرا نام جوکر)،خدا بھی آسماں سے جب زمیں پر دیکھتا ہوگا(دھرتی) بے دردی بالماں تجھکو میرا من یاد کرتا ہے(آرزو)،دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی (تیسری قسم) لال چھڑی میدان کھڑی،(جانور) چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے،(جنگلی) بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے،(سورج) گمنام ہے کوئی بدنام ہے کوئی،ہمیں کالےہیں تو کیا ہوا دل والےہیں (گمنام) دل کےجھروکے میں تجھ کو بٹھاکے(برہمچاری)،
غم اٹھانے کے لیے میں تو جئے جاوں گا (میرے حضور)،یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا،میں کیا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا(سنگم)، اپریل فول بنایا تو ان کو غصہ آیا (اپریل فول)،تیری پیاری پیاری صورت کوکسی کی نظر نہ لگے چشم بد دور،میں زندگی میں ہر دم روتاہی رہا ہوں، جیابے قرار ہے،ہم تجھ سے محبت کرکے صنم،چھوڑ گئے بالم(برسات)سے لیکرسن سائبا سن پیار کی دھن(رام تیری گنگا میلی) جیسے مقبول زمانہ نغموں کے خالق حسرت جئے پوری 17 ستمبر 1999ء کو ممبئی کے ایک خانگی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
جب کبھی ہندوستانی فلموں میں بلند پایہ شاعری،کانوں میں رس گھولتے نغموں اور درد بھرے گیتوں و نغموں کی بات چلے گی توحسرت جے پوری کا نام اور کام سب سے اوپر رہے گا اور ہر زمانہ کے فلمی شائقین ان کے گیتوں کے ذریعہ ہی صحیح فلمی گیتوں کا معیار طئے کریں گے۔ اپنے مقبول زمانہ گیتوں کے ذریعہ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ایک قابل ذکر بات یہ ہےکہ اپنے ساتھی گیت کار شیلندر کی جانب سے راجکپور اور وحیدہ رحمن کولیکر بنائی گئی فلم تیسری قسم کے مشہور گیت ” دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی، کاہے کو دُنیا بنائی”حسرت جے پوری نے لکھا تھا۔لیکن فلمی نقادوں نے اس گیت کو شیلندر سے منسوب کر دیا۔!!
مضمون نگار : یحییٰ خان
Mail: khanreport@gmail.com
facebook.com/khanreport
Twitter: @khanyahiya
Instagram: @khan_yahiya276
” تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے ” ( فلم : پگلا کہیں کا)
” جانے کہاں گئے وہ دن ” (فلم : میرا نام جوکر)
” بے دردی بالماں تجھ کو میرا من یاد کرتا ہے ” (فلم: آرزو)
” چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے ” ( فلم : جنگلی)
” لال چھڑی میدان کھڑی ” (فلم : جانور)
” احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستو ” ( فلم : غبن)
” بہارو پھول برساو میرا محبوب آیا ہے ” ( فلم : سورج)
” دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی ” (فلم : تیسری قسم)