متھراکی شاہی عید گاہ مسجدکو ہٹانے کی درخواست پر عدالت نے جاری کیں نوٹسیں

قومی خبریں

متھراکی شاہی عید گاہ مسجدکو ہٹانے کی درخواست پر عدالت نے جاری کیں نوٹسیں

متھرا۔اتر پردیش: متھرا کی ایک عدالت نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کی انتظامی کمیٹی ، عیدگاہ ٹرسٹ اور دیگر کو نوٹسیں جاری کردی ہیں ان نوٹسوں میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مقام سے 17 ویں صدی میں تعمیر اس مسجد کو مذکورہ مقام سے ہٹانے کیلئے داخل کی گئی درخواست پر ان کا موقف کیا ہے؟  اس سلسلہ میں پون کمارشا ستری نے عدالت میں ایک تازہ درخواست دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کٹرا کیشو دیومندر کامپلیکس دراصل  بھگوان شری کرشنا کی جائے پیدا ئش ہے ۔

Picture Courtesy : Booksfact

کل ہفتہ کے روزایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج دیوکانت شکلا کی عدالت نے پون کمارشا ستری کی درخواست منظور کرلی اور اگلی سماعت کے لیے 8 مارچ طئے کی ہےاس سلسلہ میں عدالت نے اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ ، شاہی مسجد عیدگاہ ٹرسٹ سمیت چار فریقین کونوٹسیں جاری کی ہیں۔

یاد رہے کہ اس معاملے میں ماضی میں تین مقدمات شری کرشنا کے عقیدت مند کے طورپر دائر کیے گئے تھے۔درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ اس شاہی مسجد عیدگاہ میں 13.37 ایکڑ اراضی اس سے پہلے ٹھاکر کیشیو دیو کی تھی۔ لیکن سری کرشنا سیوا سنگھ نے شاہی مسجد عیدگاہ ٹرسٹ کے ساتھ سمجھوتہ کیاجسے جو کہ غلط ہے اور اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم ٹھاکر جی کی خدمت کرتے ہیں۔

لہٰذا مسجدکو ہٹادیا جائے اور پوری زمین ٹھاکر کیشیو دیو مہاراج کو دے دی جائے۔ درخواست گزارپون کمارشا ستری نے اس معاملے میں اترپردیش سنی مرکزی وقف بورڈ ، شاہی مسجد عیدگاہ ٹرسٹ ، سری کرشنا سروس اور سری کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ کو فریقین نامزد کیا۔ درخواست گزار کے وکیل دیوکی نندن شرما نے کہا کہ عدالت نے پون شاستری کی درخواست قبول کرلی ہے۔تمام چارمخالفین کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

پون شاستری کے علاوہ اس تنازعہ میں مزید تین مقدمات دائر کردیئے گئے ہیں۔ یہ درخواست سب سے پہلے 25 ستمبرکوآٹھ مقدمہ بازوں نے دائر کی تھی جس میں لکھنؤ کے رہائشی ہائی کورٹ کے وکیل رنجنا اگنی ہوتری اور شری کرشنا ویراجمان شامل ہیں۔اس کے بعد ہندو سینا کے صدر منیش یادو نے 15 دسمبر کو اپنے آپ کو شری کرشنا کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک مقدمہ دائر کیا۔ تیسرا مقدمہ ایڈووکیٹ مہندر پرتاپ نے سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت میں دائر کیا ہے۔ شری کرشنا اور منیش یادو کی درخواست قبول کرلی گئی ہے۔

Picture Courtesy : Sabrang India

یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا کہ متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کا قضیہ بہت قدیم ہے۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں جب لال کرشن اڈوانی نے ایودھیا کا مسئلہ اٹھا یا تھا تو دیگر نے اِن مساجد کا ذکر بھی چھیڑا تھا۔

اس وقت بعض طاقتیں ملک کی سینکڑوں مساجد کی ایک طویل فہرست بھی تیار کرتے ہوئے ان کی جگہ مندروں کا مطالبہ کرکے امن و قانون کے مسائل پیدا کر رہی تھیں ۔ جس پر اس وقت کے وزرائے اعظم وی پی سنگھ، آئی کے گجرال اور دیوے گوڑا نے غالباً عدالت عظمیٰ کی مدد سے یہ طئے کیا تھا کہ مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں میں مسئلہ صرف اجودھیا کی بابری مسجد کا ہے اس کے علاوہ کسی اور مسجد یا مذہبی مقام کا کوئی قضیہ نہیں ہے!! اس لیے کسی اور مسجد یا مقام کو متنازعہ بنا کر شور شرابہ کرنا بالکل غلط ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے